یونیورسٹی طالبہ جنسی ہراسانی کا شکار، سٹوڈنٹس کا احتجاج

فوٹو: فائل

گلگت(زمینی حقائق ڈاٹ کام)یونیورسٹی کی ایک اور طالبہ مخلوط تعلیم کی بھینٹ چڑھ گئی ،قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے طلبہ نے طالبہ کو مبینہ طور پر جنسی ہراساں کیے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔

متاثرہ طالبہ کو اسکالرشپ افیئرز کے ایک ملازم کی جانب سے جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا جس کے خلاف سیکڑوں طلبہ و طالبات نے احتجاج کیا اس موقع پر مظاہرین وائس چانسلر کے دفتر کے باہر جمع ہوئے اور انتظامیہ اور ان کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے۔

مظاہرین سے خطاب میں طلبہ یونینز کے رہنماؤں نے متاثر طالبہ کو انصاف کی فراہمی تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ طالبات کو ہراسانی سے تحفظ فراہم کیا جائے۔

احتجاج میں شریک گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے نومنتخب رکن عبید اللہ بیگ نے کہا کہ یونیورسٹی کے اسٹاف کی جانب سے طلبہ کو ہراساں کرنا قابل مذمت ہے وائس چانسلر سے پوچھوں گا کہ اتنے دن گزرنے کے باوجود اس معاملے کا نوٹس کیوں نہیں لیا گیا۔

اس حوالے سے ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق ایک طالبہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ماضی میں ہراساں کیے جانے کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں جس میں اسکالرشپ افیئرز دفتر کے ملازمین ملوث تھے۔

انہوں نے کہا کہ طالبات کو اسکالرشپ حاصل کرنے کے لیے تعلقات قائم کرنے کا کہا جاتاہے،متاثرہ طالبہ نے وی سی ڈاکٹر عطااللہ شیخ کو درخواست میں اپنے ساتھ پیش آنے والے ہراسانی واقعہ سے متعلق بتایا ہے ۔

واقعہ17 نومبر کی صبح پیش آیا تھا جس میں یونیورسٹی کے اسکالرشپ افیئرز آفس کے ملازم سعید نے طالبہ کو جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا تھا۔

متاثرہ طالبہ نے خط میں لکھا کہ ملازم نے انہیں چھیڑا اور چھوا، ساتھ ہی طالبہ نے لکھا کہ میں صدمے کی حالت میں ہوں اور وائس چانسلر سے اپنے لیے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کرتی ہوں۔

علاوہ ازیں یونیورسٹی سے جاری ایک اعلامیہ میں کہا گیا کہ وائس چانسلر ڈاکٹر عطااللہ شاہ نے طالبہ کی شکایت کا نوٹس کیا ہے اور اس سلسلے میں تحقیقات کے لیے ایک 3 رکنی کمیٹی بنا دی ہے۔

واضح رہے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد، جامشورو یونیورسٹی ، کراچی یونیورسٹی سمیت مختلف جامعات میں خود اساتذہ اور کبھی ملازمین کے ساتھ طالبات کوہراساں کرنے کے واقعات آئے روز ہوتے آئے ہیں اب قراقرم یونیورسٹی میں بھی ایک اور واقعہ ہوا ہے۔

سوشل میڈیا کے رجحان ساز پڑھے لکھے افراد دینی مدارس میں ایسے واقعات پر مدارس کے نظام تعلیم اور اساتذہ پر تنقیداور مدارس بند کرنے کے مطالبے کرتے ہیں لیکن یونیورسٹیز میں مخلوط تعلیم کے باعث ایسے واقعات پر مخلوط تعلیم کے خلاف مجرمانہ خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے۔

Comments are closed.