قومی اسمبلی، حکومت اپوزیشن مفاہمت جاری ، 6آرڈیننسز واپس،5قوانین منظور

فوٹو :فائل

اسلام آباد(ویب ڈیسک)حکومت اور اپوزیشن کے درمیان آرمی ایکٹ ترمیمی بل سے پیدا ہونے والی غیر اعلانیہ مفاہمت آگے بڑھنے لگی، قومی اسمبلی میں حکومت نے 6 آرڈیننسز واپس لے لیے جبکہ 5 قوانین کثرت رائے سے منظور کر لئے گئے۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت اجلاس  میں حکومت اور اپوزیشن میں آج بھی اتفاق رائے کا غیر معمولی مظاہرہ دیکھنے کو ملا اور کچھ لو کچھ دو فارمولے کے تحت کارروائی آگے بڑھ رہی ہے ۔

اپوزیشن کے کہنے پرحکومت نے قومی اسمبلی میں 6 آرڈیننس واپس لے لیے جن میں سکسیشن سرٹیفکیٹ آرڈیننس، لیگل ایڈ آرڈیننس، خواتین کے جائیداد میں حقوق سے متعلق آرڈیننس، بے نامی لین دین، اعلی عدلیہ کے ڈریس کوڈاور قومی احتساب آرڈیننس شامل ہیں۔

اس دوران جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبر چترالی نے آرڈیننسز کی واپسی اور بلز کی شکل میں منظوری پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن نے ہمیں مذاکراتی عمل میں اعتماد میں نہیں لیا۔

حکومت نے یہی آرڈیننسز اسمبلی میں 6 بلز کی شکل میں پیش کیے جن میں سے 4 بلز وراثتی سرٹیفکیٹ بل ، قانونی معاونت وانصاف ،اعلی عدلیہ میں لباس اور خواتین کے جائیداد کے بلز کی کثرت رائے سے فوری منظوری دیدی گئی ۔

زینب الرٹ جوابی رد عمل وبازیابی ایکٹ 2019 متفقہ منظور

قومی احتساب اور بے نامی لین دین کے دو بلز مزید غور کے لئے متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیج دیئے جبکہوفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے بچوں کے خلاف جرائم کے سدباب کے لیے زینب الرٹ جوابی ردعمل اور بازیابی ایکٹ 2019 بل پیش کیا جو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔

بل کے مطابق بچوں کے خلاف جرائم پر سزائے موت یا 14 سال قید کی سزا دی جاسکے گی جبکہ دس لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔
عدالت کو بچوں کے خلاف جرائم کا فیصلہ تین ماہ کے اندر کرنا ہوگا، گمشدہ بچوں سے متعلق ڈیٹا بیس تیار کیا جائے گا.

اس حوالے سے 1099ہیلپ لائن قائم کی جائے گی جس پر بچے کی گمشدگی، اغوا اور زیادتی کی اطلاع فوری طور پر ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا، ہوائی و ریلوے اڈوں، مواصلاتی کمپنیوں کے ذریعے دی جائے گی۔

قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے قانون کے مطابق جو سرکاری افسر دو گھنٹے کے اندر بچے کے خلاف جرائم پر ردعمل نہیں دے گا اسے بھی سزا دی جاسکے گی، 18 سال سے کم عمر بچوں کااغوا، قتل، زیادتی، ورغلانے، گمشدگی کی ہنگامی اطلاع کے لئے زینب الرٹ جوابی ردعمل و بازیابی ادارہ  قائم کیا جائے گا۔

قومی اسمبلی سے بل کی منظوری کے بعد اسد عمر نے کہا کہ بچوں کے خلاف جرائم کے فیصلے تین ماہ میں ہوا کریں گے۔ پی پی پی رکن مہرین رزاق بھٹو نے کہا کہ آج زینب کی دوسری برسی ہے اور یہ بل منظور ہونا بڑا پیغام ہے۔

فہیم خان نے مطالبہ کیا کہ بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو سرعام چوک میں پھانسی پر لٹکایا جائے جواب میں شیری مزاری نے کہا کہ پاکستان میں مجرموں کو سر عام لٹکانے کی کوئی گنجائش نہیں، اگر سر عام لٹکانے کی سزا دینا ہے تو قوانین میں ترمیم کر لیں.

انھوں نے کہا بچوں سے زیادتی کا معاملہ ہرجگہ اور ہر طبقے میں ہے، مانسہرہ واقعہ پر قاری شمس الدین جوڈیشل ریمانڈ پر ہے اس پر الزامات عائد کر دیئے ہیں، بچے کی مالی امداد کی درخواست آئی ہے، اسے 20 ہزارروپے دیں گے۔

ریپ اور قتل کا نشانہ بننے والی زینب انصاری کی لاش کے ملنے کے ٹھیک 2 سال بعد قومی اسمبلی میں زینب الرٹ جوابی رد عمل اور بازیابی ایکٹ 2019 متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔

اس بل کو وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی جانب سے گزشتہ سال جون کے مہینے میں قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ قصور کی رہائشی 6 سالہ زینب 4 جنوری 2018 کو لاپتہ ہوئی تھی اور 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ان کی لاش ملی جس کے بعد ملک بھر میں شدید احتجاج اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔

اس گھناؤنے جرم کے بعد قصور میں مظاہرے سامنے آئے تھے جس میں 2 افراد ہلاک بھی ہوئے تھے، اگست 2019 میں پارلیمانی کمیٹی نے زینب الرٹ بل کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مجرموں کو ‘سخت ترین’ سزا پیش کی جائیں۔

آج منظور ہونے والے بل کے تحت ‘بچوں کے خلاف جرائم پر عمر قید، کم سے کم 10 سال اور زیادہ سے زیادہ 14 سال سزا دی جاسکے گی جبکہ 10 لاکھ کا جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔

بل کے سینیٹ سے منظور ہونے کے بعد زینب الرٹ رد عمل اور بازیابی ایجنسی کے قیام کے راستے کھل جائیں گے جہاں لاپتہ بچوں کے کیسز رپورٹ ہوں گے اور ان کے خود ساختہ طور پر الرٹ جاری ہوسکیں گے۔

Comments are closed.