چاروں صوبوں کی زنجیر

محمد مبشر انوار

اللہ تبارک و تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس زمین پر انسان اپنے وقت پر آتا ہے اور اپنے وقت پر اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے مگر اس وقفے میں جو کردار،اس شخص کے ذمہ ہو،وہ ادا کرتا ہے۔ اپنے اس کردار کے باعث ہی مرد و زن اپنے حلقہ اثر میں یاد رکھا جاتا، ایسے میں کچھ شخصیات علاقائی شناخت بناتی ہیں تو کچھ قومی جبکہ ان سے بڑھ کر کچھ شخصیات اپنے اپنے مخصوص شعبہ ہائے زندگی میں عالمی شہرت دوام حاصل کرتی ہیں اور رہتی دنیا تک ان کا نام اور پہچان باقی رہتی ہے۔ عالمی شہرت یافتہ شخصیات کے لئے زمان مکان ثانوی حیثیت رکھتے ہیں،جبکہ ان کا کردار،ان کا عمل،ان کی جدوجہد،ان کی کامیابی یا ناکامی ہی ان کی اصل پہچان اور وجہ شہرت ہوتی ہے۔ پاکستان کے سیاسی افق پر سیاسی اعتبار سے عالمگیر شہرت کی حامل شخصیت میں ایک بابائے قوم ہیں تو خاندانی اعتبار سے بھٹو خاندان پاکستان کی سیاست سے لازم و ملزوم ہے جبکہ دوسرے سیاسی /تجارتی خاندان کی(شریف خاندان) اصل پہچان سیاسی سے زیادہ کاروباری ہو چکی ہے۔ جیسے جیسے وقت گذرتا جائے گا مزید حقائق سامنے آتے جائیں گے اور اس خاندان کے چہرے سے نقاب اترتا چلا جائے گا کہ کیسے اس خاندان نے اس ملک کو نہ صرف لوٹا ہے بلکہ اسے اندرونی طور پر انتہائی کھوکھلا بھی کر دیا ہے۔ بھٹو خاندان گو کہ موروثی طرز سیاست پر گامزن ہے مگر کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ آج بھی پاکستانی سیاست میں بھٹو فیکٹر موجود ہے اور جب تک پاکستان قائم و دائم ہے،یہ فیکٹر پاکستان کی سیاست میں موجود رہے گا۔ 

برصغیر میں مسلم قوم کا شعور سب سے پہلے سرسید احمد خان کو ہوا،جب انہوں نے وقت کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے،مسلمانوں کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کی کوشش کی انہیں جدید علوم سے بہرہ ور کرنے اور انگریز قوم سے فاصلوں کو کم کرنے کی خاطرعلی گڑھ کالج کی بنیاد رکھی۔ اس کاوش کو بعد ازاں آل انڈیا مسلم لیگ نے باقاعدہ ایک عملی شکل دی اور برصغیر کے مسلمانوں کو ایک قوم بننے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ در حقیقت انگریز و ہندو بنئے کے ظلم و ستم کا شکار مسلمان اس حقیقت سے آشنا ہو چکا تھا کہ اگر انہوں نے اپنا اتحاد نہ بنایا،ایک قوم کی شناخت نہ اپنائی،متحد ہو کر انگریز کے خلاف عملی جدوجہد نہ کی،تو یقینی طور پر ان کی حالت زار پر رونے والا بھی کوئی نہ ہوگا۔ اس حقیقت کا ادراک فراہم کرنے میں آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنماؤں کا کلیدی کردار رہاگو کہ شروع میں بابائے قوم متحدہ ہندوستان کی آزادی کے لئے سرگرم رہے لیکن بعد ازاں ہندو بنئے کی مکاری آشکار ہونے پر نہ صرف سیاست سے کنارہ کش ہوئے بلکہ ہندوستان چھوڑ کر برطانیہ سکونت اختیار کی مگر علامہ محمد اقبال کی مسلسل کوششوں اور بدلتے عالمی حالات کے مطابق واپس ہندوستان تشریف لائے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی۔ یہ ان کی ولولہ انگیز قیادت اور ذاتی ساکھ تھی جس نے انتہائی قلیل وقت میں بکھرے ہوئے مسلمانوں کو ایک قوم میں تبدیل کرکے حصول مقصد کو ممکن بنایا وگرنہ ایک الگ وطن کا حصول اس وقت اتنا آسان قطعی نہ تھا کہ اپنے وقت کی دو مکار ترین قوموں سے آزادی حاصل کی جا سکتی۔ آج بھی ہندوستان میں اقلیتوں کی جو درگت(خیر لمحہ موجود میں پاکستان میں اقلیتیں بھی اتنی محفوظ نہیں رہی)بن رہی ہے،وہ ساری دنیا پر آشکار ہے،بالخصوص وہاں کے مسلمان جس ظلم و ستم کا شکار ہیں،وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں اور ہند توا کے پیروکار ببانگ دہل کہتے ہیں کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے اور اگر یہاں رہناہے تو ہندو بن کے رہو۔ اس مقصدکو حاصل کرنے کے لئے راشٹریہ سیوک سنگھ کس طرح بروئے کار ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں مگر اقوام عالم کی زبانیں اس ریاستی دہشت گردی پر اپنے قومی مفادات سے زیادہ بغض مسلم پر گنگ ہیں۔

مراد یہ ہے کہ تشکیل قوم کوئی مذاق نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ فقط 23سال کے قلیل عرصہ میں،نوزائیدہ پاکستان میں بسنے والی قوم میں شدید دراڑیں پر چکی تھی اور 1970کے عام انتخابات میں مشرقی و مغربی پاکستان کے شہریوں کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل کردی تھی اور طرفین کے ووٹرز دوسرے امیدوار پر اعتبار کرنے سے قاصر تھے یا دوسرے الفاظ میں مشرقی پاکستان کی سیاسی جماعت کے لئے مغربی پاکستان میں امیدوار نا پید تھا تو یہی صورتحال مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو در پیش تھی۔ قوم میں اختلافات کی وسیع خلیج حائل کرنے کے بعد،دشمنوں کے لئے یہ نادر موقع تھا کہ دو قومی نظرئیے کے خلاف غبار نکال سکیں،جو انہوں نے نکالا۔آج کے پاکستان میں کامیاب ہونے والی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی تھی،جس کی قیادت قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کر رہے تھے،اور ان کی قیادت میں موجودہ پاکستان نے قومی سطح پر ترقی کی منزلیں طے کی۔ بھٹو،وقت کی مناسبت اور اپنی سیاسی جماعت کے منشور کے عین مطابق،اس ملک کی تعمیر میں جتے تھے،شکست خوردہ قوم کا مورال بلند کرنے کا عزم لئے اسے ایک مربوط اور مستحکم قوم بنانے کا خواب لئے دن رات کوشاں تھے۔ جو مقبولیت اور قبولیت پاکستان پیپلز پارٹی کو مغربی پاکستان میں نصیب ہوئی تھی،وہ اس درماندہ قوم کو بھنور سے نکالنے میں مددگار ثابت ہو سکتی تھی کہ اسے ایک ایسا قائد نصیب ہو چکا تھا جو اندرونی و بیرونی مسائل سے نہ صرف بخوبی آگاہ تھا بلکہ ان مسائل کو حل کرنے کا عزم اور راستہ بھی جانتا تھا بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ وہ راستہ بنانا بھی جانتا تھا۔بھٹو کے دور میں سیاست کا رخ کلیتاً بدل گیا اور ملکی سیاست براہ راست عوامی ڈگر پر چلنا شروع ہو گئی،مزدور،کسان،طالبعلم،ہنرمندو سیاست سے الگ تھلگ رہنے والوں کو سیاست پر بات کرنے کا حوصلہ ہوا،مزدوروں کو شرکت اقتدار کا احساس ہوا،ڈرائنگ روم سیاست کے ”غلاموں“ کو زبان ملی،ان کے حقوق کا تحفظ ہونے لگا،جس نے سرمایہ داروں،جاگیرداروں کی نیندیں حرام کر دی۔بھٹو نے سیاست کو عوامی تو بنایا مگر ریاستی مشینری اس کے فلسفے کو کما حقہ سمجھ نہ سکی اور روٹی،کپڑا اور مکان کی پالیسی کو بعینہ نافذکرنے میں ناکام رہی۔ رہی سہی کسر قبل ازوقت انتخابات اور بھٹو کے چند ساتھیوں کے ”بلا مقابلہ“ منتخب ہونے کے شوق نے پوری کر دی،جو بعد ازاں بھٹو کے عدالتی قتل پر منتج ہوئی۔ 

قافلہ مگر رکا نہیں اور قیادت بھٹو کی بیگم،نصرت بھٹو اور بیٹی(جس کی تربیت خود بھٹو نے کی تھی) کے ہاتھ آ گئی۔ سلسلہ وہیں سے جاری تھا جہاں بھٹو کے اقتدار پر شب خون مارا گیا تھا،ماں بیٹی اپنے پورے عزم اور ولولے کے ساتھ آمر وقت کے سامنے ڈٹ کر کھڑی تھی اور اس کی غیر آئینی حکومت کو للکار رہی تھی۔ بھٹو خاندان کی مخصوص پہچان کے ساتھ دونوں ماں بیٹی صف اول میں موجود رہ کر پارٹی کے کارکنان کا حوصلہ بڑھاتی نظر آتیں،لاٹھی،گولی کی سرکار کا پہلا وار نہتی خواتین پر ہوتا،کارکنان کی باری بعد میں آتی۔ ابتلاء کے اس دور میں جب طاقتوروں میں سے کوئی ایک بھی بھٹوز کی صف میں موجود نہیں تھا،اللہ اور عوام کے سہارے ان نہتی خواتین نے آمر وقت کو سب اخلاقیات بھلا دیں۔ ایک طرف بھٹو بذات خود جیل سے آمر وقت اور اس کے چمچوں کو للکاررہے تھے تو دوسری طرف عزم و ہمت کی پیکر،انصاف کی تلاش میں،عوام کے حقوق کی خاطر سڑکوں پر دربدر ماں بیٹی ریاستی ظلم و ستم کے سامنے ہتھیار ڈالنے کو تیار نہ تھی۔ دوسری طرف میر مرتضی بھٹو اور میر شاہنواز بھٹو حصول انصاف میں انتقامی جذبے کے تحت انتہائی اقدامات کی طرف راغب ہوئے،جو سراسر غیر سنجیدہ و غیر جمہوری رویہ تھا جبکہ محترمہ بے نظیر اپنے دونوں بھائیوں کے لائحہ عمل کے برعکس مکمل یکسوئی کے ساتھ مروجہ جمہوری جدوجہد جاری رکھے ہوئے تھی۔ محترمہ کی جمہوریت کے ساتھ کمٹمنٹ اول روز سے ہی واضح تھی اور ان کی زندگی جمہوری رویوں کا پرتو رہی۔ مخالفین ان پر یہ الزام بھی دھرتے ہیں کہ محترمہ نے اپنی زندگی میں جمہوری رویوں کے برعکس مقتدرہ کے ساتھ سمجھوتے بھی کئے،جو ان کی جمہوریت سے وابستگی کے خلاف رہے اور ان کی جمہوری جدوجہد پر ایک بدنما داغ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ معروضی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان الزامات سے کلی ایک خدمت گذار کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھے۔ 

محترمہ کی سیاسی زندگی کے حوالے سے ایک الزام یہ بھی ہے کہ محترمہ نے پارٹی کے بنیادی منشور”سوشلزم ہماری معیشت ہے“ سے انحراف کرتے ہوئے سرمایہ داری نظام اپنایا۔ یہ حقیقت ایک بار پھر معروضی حالات سے مشروط ہے کہ جب محترمہ کو اقتدار ملا،عالمی منڈیوں میں سوشلسٹ معیشت (روسی نظام جبکہ چین اس وقت تک عالمی منڈیوں میں اس نظام کے تحت اپنی جگہ حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھا)دم توڑ رہی تھی اور سرمایا دارانہ نظام اپنی بھر پور طاقت کے ساتھ بروئے کار آ رہا تھا۔ قطع نظر اس حقیقت کہ معاشی سرگرمیوں کا بنیادی نقطہ عوام الناس کو روزگار کی فراہمی یقینی بنانا ہے،جو محترمہ کے دور حکومت میں سرمایہ دارانہ نظام کو اپناتے ہوئے حتی المقدور حد تک یقینی بھی بنایا گیا لیکن اس کی رفتار کسی طور بھی قابل ستائش نہ رہی۔ پیپلز پارٹی دراصل کسانوں کی پارٹی رہی ہے اور اس نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ پاکستان کا کسان خوشخال ہو،اس کی معاشی پالیسیوں کا زیادہ زور کسانوں کی زبوں حالی دور کرنے پر رہا۔ ذوالقار علی بھٹو نے عام عوام کو شرکت اقتدار کا جو احساس دیا تھا اور وقت رخصت اپنی منظور نظر جانشین بیٹی کو عوام کے حوالے سے جو نصیحت کی تھی،محترمہ نے اس کا پورا پاس کیاگو کہ دوسرے دور حکومت میں محترمہ کچھ عناصر کی باتوں میں آ کر ایوان وزیر اعظم تک محدود ہو گئی مگر جلا وطنی کے بعد وطن واپسی پر محترمہ نے ان تمام احتیاطوں اور سمجھوتوں کو بالائے طاق رکھ دیا اور براہ راست عوام میں گھل مل گئی۔ محترمہ کو واضح انداز میں یہ باور کروا دیا گیا تھا کہ جس سمجھوتے کے تحت وہ وطن واپس آ رہی ہیں،اس کے مطابق پنجاب ان کے لئے شجر ممنوعہ ہو گا اوریہاں کنگز پارٹی اپنی انتخابی مہم چلائے گی۔ مقتدرہ سے سمجھوتے کرتے کرتے محترمہ یہ جان چکی تھی کہ مقتدرہ سے ٹکر صرف اور صرف عوامی حمایت کی بنیاد پر ہی لی جا سکتی ہے لہذا عوام میں اپنی جڑوں کو مضبوط رکھنا ضروری ہے سو تمام تر دھمکیوں کے باوجود محترمہ نے،انتخابی مہم کے لئے،پنجاب کامیدان کنگز پارٹی کے لئے خالی نہ چھوڑا۔ محترمہ کے جلسے و جلوسوں نے جنرل مشرف کو حواس باختہ کر دیاتھا اور محترمہ 17اکتوبر2007کو کارساز میں ملنے والے نمونے کے باوجود پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہ تھی،جنرل مشرف جو این آر او کر کے سمجھ رہے تھے کہ وہ محترمہ کو پابند کرنے میں کامیاب ہو جائیں،جنرل مشرف کی تمام تر منصوبہ بندی کو خاک میں ملاتے ہوئے محترمہ عوام کے دربار میں جا پہنچی اور آفرین ہے پاکستانی عوام پر کہ وہ اپنی قائد کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے دیوانہ وار اس کے جلسوں میں شریک ہوئے۔ مقتدرہ کی ساری خوش گمانیاں ہوا ہونے لگی،ان کے تئیں تو وہ عوام کی محبت پیپلز پارٹی سے ختم کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے مگر اپنی قائد کو اپنے درمیان دیکھ کر عوام جوق در جوق اسے سننے کے لئے لپک پڑے۔ 

”میثاق جمہوریت“ پر دستخط کرنے اور ”مفاہمت“ لکھنے کے بعد یہ گمان ہو چلا تھا کہ محترمہ نے اپنی جلا وطنی سے بہت کچھ سیکھا ہے اور آئندہ یہ امید کی جا رہی تھی کہ محترمہ حقیقتاً عوام کی حالت زار کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی مگر ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور سمجھوتے کی خلاف ورزی کرنے پر مقتدرہ حلقوں نے انہیں سزا دے ڈالی۔ کیا واقعی یہ مقتدرہ حلقے تھے جنہوں نے اس نہتی اور بہادرخاتون کو سزا دی یا اس کا وقت پورا ہو چکا تھا،یا محترمہ کے انتقال کا فائدہ کس کو پہنچا،بہر کیف ہر صورت، محترمہ اپنے چاہنے والی انتہائی مخلص عوام کو چھوڑ کر،اس فانی دنیا سے رخصت ہو گئی۔ چشم فلک نے کیا عجیب نظارہ دیکھاکہ اس کے کارکن بلک بلک کر،دھاڑیں مار مار کر روتے رہے،اسے بہن 

سمجھنے والے،ماں سمجھنے والے یا قائد ماننے والے اپنی اس قائد سے محروم کر دئیے گئے۔ محترمہ کی رحلت کے بعد،قومی سیاست میں رواداری کے نام پر جس سیاست کو پروان چڑھایا گیا وہ نہ صرف باعث شرمندگی ہے بلکہ اس نے ملک کو دہائیاں پیچھے دھکیل دیا ہے،رواداری کے نام پر محترمہ کے فلسفہ مفاہمت کو جس طرح داغدار کیا گیا،اس سے یقینی طور پر محترمہ کی روح تڑپ اٹھی ہو گی۔ محترمہ کے فلسفہ مفاہمت کا مقصد ہرگز ہرگز یہ نہیں رہا تھا کہ مفاہمت کی آڑ میں کرپشن کی جائے اورایک دوسرے کی کرپشن پر خاموش رہا جائے بلکہ اس مفاہمت کا مقصد یہ تھا کہ 90کی دہائی میں کی جانے والی گندی سیاست کا خاتمہ ہو اور بلا وجہ انتقامی کارروائیوں سے گریز کرتے ہوئے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا جائے۔ 

محترمہ بنیادی طور پر ایک بہترین اپوزیشن رہنما تصور ہوتی تھی مگر یہ کہنا کہ حکومت میں ان کی کارکردگی بالکل ناقص تھی،کسی طور بھی درست نہیں۔ حکومت میں رہتے ہوئے، دستیاب وسائل میں انہوں نے مقدور بھر کوشش کرتے ہوئے نہ صرف جمہور کو فوائد پہنچانے کی سعی جاری رکھی بلکہ ملکی مفادات کو بھی ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہوئے،انتہائی نا مساعد حالات میں بھی انتہائی اہم سنگ میل عبور کئے۔ میزائل ٹیکنالوجی ہو یا قبل از وقت لوڈ شیڈنگ کے جن سے نبرد آزما ہونا ہو،داخلی استحکام ہو یا خارجہ پالیسی رہی ہو،ان کی نظر ہمیشہ ملکی مفادت پر رہی۔ امن کی بحالی کے لئے ان کی کاوشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور نہ ہی روایتی دشمن سے مذاکرات میں انہوں نے کسی لچک کا مظاہرہ کیاالبتہ مذاکرات کی بحالی کی خاطر کچھ لو کچھ دو کی پالیسی اپناتے ہوئے تھوڑا ریلیف ضرور فراہم کیا تا کہ امن کے دشمنوں کو بے نقاب کیا جا سکے،اس کا مقصد قطعاً یہ نہیں کہ اپنے اصولی مؤقف سے ہی پیچھے ہٹ جائیں۔ مقتدرہ حلقوں اور سویلین کے مابین پائے جانے والے اعتماد کے فقدان/خلیج کو بتدریج بھر اجائے اور ملکی ترقی کی خاطر مل کر کام کیا جائے،اداروں کی توقیر کی جائے،ان کے فیصلوں کو تسلیم کیا جائے الا یہ کہ واقعتاً جسٹس قیوم جیسے واقعات بے نقاب ہوں کہ ایسے واقعات ملکی اداروں کو کھوکھلا کرنے کا باعث تو بن سکتے ہیں مگر ان اداروں کے استحکام کے ضامن نہیں ہو سکتے۔ اپنے دوسرے دور حکومت میں محترمہ کی سیاست بالعموم معروضی حالات کی نذر ہوئی اور نہ چاہتے ہوئے یا لاعلمی میں ان کی گرفت ملکی معاملات پر سخت نہ رہی اور اسی دور حکومت میں ان کے بھائی میر مرتضی بھٹو کو انتہائی بے دردی کے ساتھ کراچی میں قتل کر دیا گیا،جس کے قاتلوں کا سراغ آج تک نہیں مل سکا۔ محترمہ نے اپنے والد کا سیاسی اثاثہ بڑی محنت اور لگن سے سنبھالا،جو ان کی رحلت کے بعد ایک نا معلوم وصیت کے مطابق ان کے شوہر نامدار کی عارضی نگہداشت میں گیا جو ازاں بعد ان کے برخوردار بلاول زرداری کو سنبھالنا ہے۔ یہاں معاملات اب پیچیدہ دکھائی دے رہے ہیں کہ آصف علی زرداری تقریباً گیارہ سال تک پارٹی امور کو چلاتے رہے ہیں،جبکہ اب قیادت بظاہر بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ ہے، اور اس دوران دو انتخابی معرکے بھی لڑ چکے ہیں،2008کے انتخابی معرکے میں تو عوام جوق در جوق محترمہ کی ہمدردی میں پیپلز پارٹی کو ووٹ دے چکے جبکہ 2013میں پارٹی کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اور پنجاب کی انتخابی مہم سے غیر حاضر ہونے کی بنا پر ووٹر گھر میں دبکا رہا۔بقول آصف علی زرداری آر اوز کے اس الیکشن میں نہ صرف ”مذاق جمہوریت“ کو نبھایا گیا بلکہ مقتدرہ حلقوں کی تکمیل خواہش بھی کی گئی۔ بعد ازاں مختلف ضمنی انتخابات میں ایک سے زائد مرتبہ بلاول کو انتخابی اکھاڑے میں اتارا گیا مگر اس کی طنابیں ہنوز آصف علی زرداری کے ہاتھ میں ہیں اور جہاں اور جتنا بلاول کو سامنے لانا مقصود ہوتا ہے،اس کا فیصلہ زرداری خود کرتے ہیں۔ بلاول بذات خود اپنی والدہ اور نانا کی سیاست کے پیروکار لگتے ہیں مگر اپنے محدود کردار کے باعث وہ کھل کر اپنی والدہ اور نانا کی سیاست کرنے سے قاصر ہیں،اب دیکھتے ہیں کہ بلاول واقعی اپنے نانا اور والدہ کی سیاست کرتے ہیں یا اپنے والد کی؟ اس سارے عمل سے ہٹ کر،ایک بات تسلیم کی جانی چاہئے کہ اپنے ہم عصر سیاستدانوں میں بلاول اس لحاظ سے بہتر ہیں کہ وہ نہ صرف عالمی سیاست کے اسرارورموز سے واقف نظر آتے ہیں بلکہ انتہائی پراعتماد بھی ہیں اور کسی بھی فورم پر اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی صلاحیت سے مالا مال بھی ہیں۔

کا فیصلہ زرداری خود کرتے ہیں۔ بلاول بذات خود اپنی والدہ اور نانا کی سیاست کے پیروکار لگتے ہیں مگر اپنے محدود کردار کے باعث وہ کھل کر اپنی والدہ اور نانا کی سیاست کرنے سے قاصر ہیں،اب دیکھتے ہیں کہ بلاول واقعی اپنے نانا اور والدہ کی سیاست کرتے ہیں یا اپنے والد کی؟ اس سارے عمل سے ہٹ کر،ایک بات تسلیم کی جانی چاہئے کہ اپنے ہم عصر سیاستدانوں میں بلاول اس لحاظ سے بہتر ہیں کہ وہ نہ صرف عالمی سیاست کے اسرارورموز سے واقف نظر آتے ہیں بلکہ انتہائی پراعتماد بھی ہیں اور کسی بھی فورم پر اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی صلاحیت سے مالا مال بھی ہیں۔

بلاول یقیناً پاکستانی سیاست سے بھی واقف ہوں گے اور اعداد و شمار کے حوالے سے بھی اپنے اتالیق سے پیپلز پارٹی کی مختلف اوقات میں کارکردگی کا علم رکھتے ہوں گے،تاہم اگر انہیں واقعی عوامی سیاست کرنی ہے تو پھر انہیں عوام میں آنا ہو گا وگرنہ جو لائحہ عمل ان کے والد طے کئے بیٹھے ہیں،اس کی بنیاد پر فقط ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر نمبرگیم سے حکومت تو بنائی جا سکے گی مگر عوام کے دلوں میں گھر کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ اس لائحہ عمل سے اگر حکومت بن بھی جائے تو وہ اتحادیوں کی مرہون منت ہی رہے گی،اس میں پیپلز پارٹی کا نظریہ یا بلاول کے نانا کا فلسفہ کہیں شامل نہیں ہو گااور نہ ہی پیپلز پارٹی آزادانہ اپنی پالیسی بنانے کے قابل ہو گی،ایسی حکومت کا انجام وہی رہے گا جو پچھلی حکومت کا تھا جبکہ عوام کا اعتماد مزید کم ہوتا جائے گا۔ ایسا نہیں کہ پیپلز پارٹی کا ووٹ بنک بالکل ختم ہو چکا ہے لیکن عوام ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو جیسی نڈر،دلیر اور بہادرقیادت کے متمنی ہیں نہ کہ کسی ایسے لیڈر کے خواہشمند جو سات پردوں کے پیچھے بیٹھ کر ان سے مخاطب ہو۔ اس کمی کو تحریک انصاف کے قائد عمران خان بھرپور طریقے سے پورا کر رہے ہیں اور عوام ان کی دل کھول کر پذیرائی کر رہے ہیں۔ 

پاکستان کے گذشتہ انتخابی نتائج پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ پیپلز پارٹی کا ووٹ بنک آج بھی سارے پاکستان میں موجود ہے،ضرورت مگر اس ووٹ بنک کو جگانے کی ہے جو قیادت کی پالیسیوں سے ناراض ہو کر دوسری پارٹیوں کی زینت بن چکا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ دوسری پارٹیوں میں اتنا مطمئن نہیں جتنا سکون اسے پیپلز پارٹی میں ملتا ہے۔ انتخابی نتائج کے حوالے سے پلڈاٹ کے ایک سروے کے مطابق 1988۔ 2008تک کے انتخابی نتائج پیپلز پارٹی کے زوال کی کہانی اس طرح سناتے ہیں کہ 1988کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے ملک بھر میں قومی اسمبلی کی کل 206نشستوں میں سے 94نشستیں حاصل کی،1990میں  قومی اسمبلی کی کل 204نشستوں میں سے 44نشستیں حاصل کی،1993میں قومی اسمبلی کی کل 206نشستوں میں سے 88نشستیں حاصل کی،1997میں  قومی اسمبلی کی کل 206نشستوں میں سے 18نشستیں حاصل کی،2002میں قومی اسمبلی کی کل 272نشستوں میں سے 63نشستیں حاصل کی،2008میں قومی اسمبلی کی کل 271نشستوں میں سے 89نشستیں حاصل کی اور 2013میں قومی اسمبلی کی کل 342نشستوں میں سے 46نشستیں حاصل کی تھی لیکن اس دورانئے میں پیپلز پارٹی اپنی پالیسیوں کی وجہ سے پنجاب میں اپنی اکثریت اور مقبولیت بہت حد تک کھو چکی ہے جس کا حصول بلاول کے لئے کڑا امتحان ہے کہ لمحہ موجود میں کوئی بھی سیاسی جماعت قومی سطح پر وفاقی جماعت کی حیثیت نہیں رکھتی،جو وفاق پاکستان کی سالمیت کے لئے انتہائی نا گزیر ہے کہ اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کی حیثیت علاقائی سے زیادہ نہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ غیر اعلانیہ طور پر سیاستدانوں نے اپنے طور پر علاقوں کا تعین طے کر رکھا ہے اور کسی دوسری سیاسی جماعت کو اپنے علاقے میں پنپنے نہیں دیتے۔ خیبر سے کراچی تک کسی ایک سیاسی جماعت کی موجودگی بے نظیر کے ساتھ ختم ہوتی نظر آتی ہے کہ وہ بے نظیر تھی،چاروں صوبوں زنجیر تھی۔ 

Comments are closed.