عدلیہ کے خلاف گھناؤنی مہم شروع کر دی گئی ہے، چیف جسٹس


فوٹو : فائل

اسلام آباد (ویب ڈیسک) جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ میرے اور پوری عدلیہ کے خلاف ایک گھناؤنی مہم شروع کر دی گئی ہے  لیکن سچ سامنے آئے گا اور سچ کا بول بالا ہو گا۔

عدالت عظمیٰ کے کمرہ نمبر ایک میں چیف جسٹس کے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس میں سپریم کورٹ کے ججز، وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کے صدر شریک ہوئے.

اپنے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب سے پہلے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے قرآن پاک کی آیات سے آغاز کیا اپنے بچپن، ماضی اور حال کے حوالے سے دلچسب معلومات بھی دیں، فہمیدہ ریاض اور فیض احمد فیض کی شاعری کا بھی تذکرہ آیا.

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ابھی الزام لگایا گیا کہ میں نے صحافیوں سے ملاقات کر کے پرویز مشرف کے خلاف فیصلے کی حمایت کی۔

فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ ایک جج کو بے خوف و خطر ہونا چاہیے، ہمیشہ وہ کیا جو بہتر سمجھا میرے لیے یہ اہم نہیں کہ دوسروں کا ردعمل یا نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔

جج کی دلیری اور اعصاب پر کنٹرول کے حوالے سے جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا ایک جج کا دل شیر کی طرح اور اعصاب فولاد کی طرح ہونے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ اپنے 22 سالہ کیرئیر کے دوران مختلف قانونی معاملات کا ہر پہلو سے جائزہ لیا، بطور جج ہمیشہ اپنے حلف کی پاسداری کی، قانونی تقاضوں سمیت بغیر خوف فیصلے کیے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نےفیض احمد فیض کی نظم کا تذکرہ کیا اور کہا کہ میری اپروچ کو فہمیدہ ریاض کی نظم میں خوبصورتی سے سمویا گیا ہے۔

یاد رہے آصف سعید کھوسہ پاکستان کے 26ویں چیف جسٹس کے عہدے سے آج سبکدوش ہوجائیں گے، جس کے بعد جسٹس گلزار احمد کل (ہفتے) کو چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔

اس سلسلے میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سپریم کورٹ منعقد ہوا، جہاں انہوں نے اپنا الوداعی خطاب بھی کیا۔

اپنی سبکدوشی سے قبل آصف سعید کھوسہ نے بطور چیف جسٹس، مری میں آمنہ بی بی پر فائرنگ سے متعلق کیس کی سماعت کی اور معاملے کو نمٹادیا۔

اس سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ میرا عدالتی کیریئر کا آخری مقدمہ ہے، سب کے لیے میری نیک خواہشات ہیں۔

فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ انہوں نے بطور جج ہمیشہ اپنے حلف کی پاسداری کی، قانونی تقاضوں سمیت بغیر خوف اور جانبداری سے فیصلے کیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اپنے 22 سالہ کیریئر کے دوران مختلف قانونی معاملات کا ہر پہلو سے جائزہ لیا جبکہ بطور چیف جسٹس 11 ماہ (مجموعی طور پر 337 دن) ذمہ داری نبھائی تاہم اگر اس میں ہفتہ وار تعطیل اور دیگر چھٹیوں کو نکال دیں تو 235 دن کام کے لیے ملے۔

انہوں نے کہا ک اس عرصے کے دروان عدالتی شعبے میں اصلاحات کیلئے اہم اقدامات کئے، ایک جج کا دل شیر کی طرح اور اعصاب فولات کی طرح ہونے چاہئیں۔

دوران خطاب چیف جسٹس نے کہا کہ جب میں پیدا ہوا تو میرے منہ میں ایک دانت تھا، میرے خاندان میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ بچہ بہت خوش قسمت ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے ہمیشہ وہی کیا جسے میں درست سمجھتا تھا اور اسے کرنے کے قابل تھا، میرے لیے یہ اہم نہیں کہ دوسروں کا ردعمل یا نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔

ریفرنس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ میں نے اپنا 100 فیصد دیا، ڈیوٹی کی پاداش سے باہر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی، کبھی آواز نہیں اٹھائی بلکہ اپنے قلم کے ذریعے بات کی.

کبھی بھی فیصلے کو غیرموزوں طور پر موخر نہیں کیا اور اپنی زندگی کے بہترین برسوں کو عوامی خدمت میں وقف کرنے کے بعد آج میرا ضمیر مطمئن ہے۔

اس سے قبل فل کورٹ ریفرنس کا آغاز نئے رجسٹرار سپریم کورٹ خواجہ داؤد نے کیا، اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر الرحمٰن نے خطاب کیا۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ اپنی آبزرویشن اور فیصلوں کے حوالے سے شعرانہ جج تصور ہوتے ہیں اور انہوں نے بطور جج 55 ہزار مقدمات کا فیصلہ کیا، جس میں 10 ہزار سے زائد فوجداری مقدامت کے فیصلے بھی شامل تھے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جھوٹی ضمانت، جھوٹی گواہی، جعلی دستاویزات اور جعلی ثبوتوں کے حوالے سے اہم فیصلے کیے، تاہم بدقسمتی سے خصوصی عدالت کے حالیہ فیصلے میں جسٹس کھوسہ کے وضع کردہ قانونی اصولوں کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔

عامر الرحمٰن کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت کے جسٹس وقار احمد سیٹھ کا فیصلہ تعصب اور بدلے کا اظہار کرتا ہے، جسٹس وقار کی جانب سے سزا پر عملدرآمد کا طریقہ غیر قانونی، غیر انسانی، وحشیانہ اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔

فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں پاکستان بار کونسل کے نائب چیئرمین امجد شاہ نے خطاب میں کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ آئین کی بالادستی اور قانون کی عملداری کا غماز ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان بار کونسل جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزا دینے کے فیصلے کو سراہتی ہے، اس فیصلے سے آئندہ کسی طالع آزما کو آئین شکنی اور جمہوری حکومت کو گرانے کی جراؑت نہیں ہوگی۔

نائب چیئرمین پی بی سی نے کہا کہ ‘جسٹس وقار اور ان کے ساتھی رکن جج کو ہمیشہ عزت و تکریم سے یاد رکھا جائے گا’۔

اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے خلاف فیصلے پر حکومتی حلقوں کا ردعمل توہین آمیز ہے، یہ ردعمل نظام فراہمی انصاف میں دخل اندازی کے مترادف ہے۔

انہوں نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ جسٹس وقار سیٹھ کے بارے میں کی گئی بات پر نوٹس لینا چاہیے، سپریم کورٹ اس فیصلے کا قانونی جائزہ لینے کا اختیار رکھتی ہے۔

پاکستان بار کونسل کے نائب چیئرمین کا کہنا تھا کہ وکلا جسٹس وقاراحمد سیٹھ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی بھرپور مخالفت کریں گے۔

Comments are closed.