مشرف مرجائیں تو لاش 3 دن ڈی چوک میں لٹکائی جائے، تفصیلی فیصلہ

اسلام آباد (ویب ڈیسک) آئین شکنی کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کی سزائے موت کا 169صفحات پرمشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا  ہے.

اسلام آباد میں جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں جسٹس شاہد فضل کریم اور جسٹس نذر محمد پر مشتمل تین رکنی خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا.

چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ اور لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد فضل کریم نے سزائے موت سنائی جبکہ سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس نذر اللہ اکبر نے اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے کہا کہ استغاثہ کی ٹیم غداری کا مقدمہ ثابت نہیں کرسکی۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ جنرل پرویز مشرف نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا، ان پر آئین پامال کرنے کا جرم ثابت ہوتا ہے اور وہ مجرم ہیں، لہذا پرویزمشرف کو سزائے موت دی جائے، قانون نافذ کرنے والے ادارے انہیں گرفتار کرکے سزائے موت پرعملدرآمد کرائیں.

تفصیلی فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ اگر پرویز مشرف مر بھی جائیں تو ان کی لاش کو ڈی چوک اسلام آباد میں تین دن تک لٹکایاجائے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کو دفاع اور شفاف ٹرائل کا پورا موقع دیا گیا، 2013 میں شروع ہونے والا مقدمہ 2019 میں مکمل ہوا، کیس کے حقائق دستاویزی شکل میں موجود ہیں۔

فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ اگر مجرم فیصلے کے خلاف اپیل کرنا چاہے تو اسے اپیل سے قبل گرفتاری دینا ہو گی.

3 نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے آئین معطل اور میڈیا پر پابندی عائد کردی تھی جبکہ چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری سمیت سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس کے جج صاحبان کو گھروں میں نظربند کردیا تھا۔


عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ اس وقت کی کورکمانڈرز کمیٹی کے علاوہ تمام دیگر وردی والے افسران جنہوں نے انہیں ہر وقت تحفظ فراہم کیا وہ مجرم کے عمل اور قدم میں مکمل اور برابر کے شریک ہیں۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ‘ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ مفرور/مجرم کو پکڑنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کریں اور اسے یقینی بنائیں کہ انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے اور اگر وہ وفات پاجاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر اسلام آباد میں ڈی چوک پر لایا جائے اور 3 دن کے لیے لٹکایا جائے.

اختلافی نوٹ لکھنے والےجسٹس نذر اللہ اکبر پرویز مشرف نے کو بری کیا ہے اور دو ججوں کے فیصلہ سے اتفاق نہیں کیا ہے.

Comments are closed.