ادھورا فیصلہ

شمشاد مانگٹ

پاکستان کی خصوصی عدالت نے پاکستان کی خصوصی قوت کے سرخٰیل جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنا کر خصوصی طبقے کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے ۔جنرل پرویز مشرف کو جن مخصوص حالات میں سزا سنائی گئی ہے اس سے خصوصی عدالت کے فاضل جج صاحبان سپریم کورٹ کے روبرو تو سرخرو قرار پائیں گے لیکن آئین اور قانون سے دلچسپی رکھنے والوں کو ایسی سزاﺅں پر اس وقت ہی مطمئن کیا جا سکتا ہے جب انصاف کے تمام تر تقاضے پورے کئے جائیں گے ۔

جنرل پرویز مشرف کو سزا سنانے سے پہلے ضروری تھا کہ ان کے صحت یاب ہونے کا انتظار کیا جاتا تاکہ وہ عدالتوں میں اپنا بھرپور موقف پیش کرسکتے چونکہ ان کی بیماری کی رپورٹس میاں نواز شریف کی نسبت زیادہ تصدیق شدہ ہیں اس لئے ان کے علاج معالجے کاانتظار کیا جاتا اور پھر سزا سنائی جاتی۔افسوس ایسا نہیں کیا گیا۔

اس کے علاوہ اس اہم ترین کیس میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے ساتھیوں کا بھی اہم کردار تھا جن میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز اور سابق چیف جسٹس حمید ڈوگر کے خلاف درخواست بھی دی گئی تھی لیکن خصوصی عدالت نے اسے نظر انداز کرکے فیصلہ دیا اور انصاف کے لئے بھوسے کے ڈھیر سے گندم کے دانے تلاش کرنے کی بجائے انہوں نے تیار شدہ گندم کے دانے ہی پیش کرکے اپنا نام روشن کرنے کی ناکام کوشش کی ۔

3 نومبر2007ءکی ایمرجنسی کے نفاذ میں بہت سارے کردار تھے جو سابق صدر پرویز مشرف کو سپورٹ کر رہے تھے لیکن فاضل عدالت نے صرف جنرل پرویز مشرف کی حد تک فیصلہ دے کر تعصب کا اظہار کیا۔ اس لئے امید کی جاسکتی ہے کہ عدالت عظمیٰ ان تمام پہلوﺅں کو مدنظر رکھ کر یہ سقم دور کرے گی۔

جنرل پرویز مشرف ایک لحاظ سے پاکستان کے بدقسمت حکمران ثابت ہوئے ہیں اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ انہوں نے ملک کی دو بڑی جماعتوں کو دو مختلف اوقات میں این آراو دئیے اور یہ دونوں جماعتیں ان کی سزا پر بغلیں بجا رہی ہیں ۔سابق صدر پرویز مشرف نے سعودی عرب کی مداخلت پر شریف خاندان کو سزا یافتہ ہونے کے باوجود خصوصی طیارے میں بٹھا کر جدہ روانہ کر دیا اور عدالتوں کی دی گئی سزاﺅں کو بھی نظر انداز کیا اور آج مسلم لیگ ن والے ان کی سزا کو تاریخ کا انتقام قرار دے رہے ہیں۔

اسی طرح پیپلز پارٹی کی قیادت وطن واپسی کے لئے بے چین تھی سابق صدر نے انہیں این آر او دے کر وطن واپسی کے راستے ہموار کئے اور یہ پارٹی جنرل (ر) پرویز مشرف کی سزا کو جمہوریت کے بہترین انتقام سے تشبیہہ دے رہی ہے ۔

اس کے علاوہ مسلم لیگ (ق) جمعیت علمائے اسلام سمیت دیگر کئی جماعتیں جنہوں نے سابق صدر کی چھتری تلے اقتدار کا بھرپور مزہ لیا وہ کھل کر افسوس کرتے بھی دکھائی نہیں دئیے۔ سابق صدر کی کمزورصحت کی طرح کمزور آل پاکستان مسلم لیگ (ن)کے کچھ کارکنوں نے عدالت کے فیصلے پر جواحتجاج کیا وہ بھی بہت کمزور تھا۔

سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف آنے والے فیصلے نے یقینی طور پر سیاستدانوں کیلئے صورتحال مزید مشکل بنادی ہے کیونکہ زیادہ سیاستدانوں کو اسی بنا پر ریلیف لینے کی عادت پڑگئی تھی کہ جرنیلوں کو سزا ئیں نہیں دی جاتیں۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنائے گئے فیصلے کا سپریم کورٹ کیا کرتی ہے اس کا فیصلہ آنے والے وقت میں ہو گا لیکن خصوصی عدالت کے فیصلے نے غداری کے نام پر قائم ہونے والے مقدمات میں سزائیں سنانے کےلئے عدالتوں کا کام آسان کر دیا ہے ۔

اس کے علاوہ اب عدالتوں میں یہ موقف بھی مضبوط ہو گا کہ اگر سابق جنرل پرویز مشرف کو بحالت بیماری موت کی سزا سنائی جاسکتی ہے تو پھر میاں نواز شریف سمیت دیگر سیاستدانوں کی سزائیں معطل کر کے انہیں بیرون ملک علاج کے لئے کیوں بھیجا جارہا ہے ؟ گزشتہ دو دنوں میں آنے والے دو فیصلوں نے فوج سے زیادہ سیاستدانوں کےلئے پریشان کن صورتحال پیدا ہوئی ہے ۔

مثال کے طورپر ماضی میں کم و بیش 7بار آرمی چیف کی توسیع کا اختیار استعمال کیا گیا اور اب عدالت نے یہ اختیار تقریبا کالعدم قرار دےکر سیاستدانوں کو اس بارے مزید قانون سازی کا حکم دیدیا ہے۔اب اصل امتحان حکومت اور اپوزیشن کا ہے اگر اپوزیشن آج حکومت کو اپنی مرضی کے جرنیل کے ساتھ ایک ”پیج“ پر رہنے کی سہولت نہیں دے گئی تو کل اسے بھی ناپسندیدہ جرنیل کے ساتھ کام کرنا پڑے گا۔اس لئے اس باریک مسئلے کا حل سیاستدانوں کو نکالنا ہے۔

جہاں تک جنرل(ر) پرویز مشرف کی سزا کا معاملہ ہے تو”ہنوزدلّی دوراست“ معاملہ سپریم کورٹ جائے گا جہاں پر سابق صدر کی بیماری بارے مصدقہ رپورٹس پیش ہوں گی اور اگر عدالت ان رپورٹس کو نہیں مانے گی تو پھر سوال تو اٹھے گا کہ بیماری کی رپورٹس پر میاں نوازشریف کی سزا معطل کرکے باہر کیوں بھیجا گیا؟

بہرحال سابق صدر پرویز مشرف سے ان کے حامیوں کا یہ گلہ رہے گا کہ صورتحال جو بھی ہوتی انہیں پاکستان میں رہنا چاہئے تھا جو سہولتیں انہیں دوبئی کے ہسپتالوں میں میسر ہیں وہ پاکستان میں بھی موجود ہیں اور زندگی ہو تو موت چھو نہیں سکتی وگرنہ موت کیلئے تو کوئی بارڈر نہیں ہے۔دلیر کمانڈو کو اس موقع پر دلیری کے ساتھ عدالتوں کا سامنا کرنا چاہئے۔

افواج پاکستان جنرل پرویزمشرف کی سزا پر شدید غوم وغصے کا اظہار کرنے کی بجائے آئینی وقانونی راستے سے رکاوٹیں دور کرنے کیلئے سوچ بچار کریں۔یہ وقت غم وغصے کا نہیں بلکہ تحمل اور بردباری کا ہے۔خصوصی عدالت کے خصوصی فیصلے سے اسکا قد کاٹھ بڑا نہیں ہوا بلکہ اس فیصلے کو و قت ثابت کرے گا کہ یہ ادھورا فیصلہ تھا جو شاید کبھی مکمل نہ ہوسکے۔

Comments are closed.