لاہور واقعہ، جنرل سیکرٹری اسلام آبادباریاسر شکیل کاموقف


فوٹو: زمینی حقائق ڈاٹ کام

اسلام آباد(زمینی حقائق ڈاٹ کام) اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری راجہ یاسر شکیل نے کہا ہے لاہوراسپتال میں وکلاء کے داخلے کی حمایت نہیں کی جاسکتی لیکن چھت سے اینٹیں مارنے والوں نے انھیں ایسا کرنے پر مجبور کیا۔

زمینی حقائق ڈاٹ کام کے ایڈیٹر محبوب الرحمان تنولی سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل سیکرٹری اسلام آبا د بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ لاہور کے واقعہ پر میڈیا نے یک طرفہ کوریج کی ہے جس کی وجہ سے وکلاء کی ساکھ مجروح ہوئی ہے۔

انھوں نے کہامیڈیا نے وکلاء کے موقف کو نظر انداز کیا ہے جب کہ میڈیا میں یہ بھی مطالبہ سامنے نہیں آیا کہ جو جو اس واقعہ کے ذمہ دار لوگ ہیں ان کو گرفتار کیا جائے ، کیونکہ ایسا ہوتا تو پھر ڈاکٹر عرفان کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جاتا جو اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔

راجہ یاسر شکیل نے گزشتہ دنوں ہائیکورٹ بار کے رہنما عمیر بلوچ کی طرف سے یہ وارننگ کے میڈیا کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں داخل نہیں ہونے دوں گا کو چھوٹی سی بات قرار دیتے ہوئے کہا اتنی سی بات کو میڈیا نے یک زبان ہو کر اٹھایا اوراس کے خلاف بولتے رہے۔


میڈیا کواصل حقائق کی طرف آنا چائیے

انھوں نے کہا میں اس کو دھمکی نہیں سمجھتا لیکن اگر اس پر بھی میڈیا یک زبان ہے تو پھر وکلاء جن کا موقف سامنے نہیں لایا جارہا ہے وہ یک زبان کیوں نہ ہوں،وکلاء نے تو صرف یہ کہا ہے کہ میڈ یا حقائق دکھائے۔

راجہ یاسر شکیل کا موقف تھا کہ وکیل کو جس بھی ٹی وی چینل پر بلایا جاتاہے اس کی پوری بات نہیں سنی جاتی اس کے برعکس جب ڈاکٹر مدعو ہو تو وہ اپنا پورا موقف پیش کرتے ہیں،میرے خیال میں یہ زیادتی ہے میڈیا کواصل حقائق کی طرف آنا چائیے۔

جنرل سیکرٹری اسلام آباد بار کاکہنا تھا کہ اصل حقائق کی طرف آئیں ، وکلاء تو پر امن احتجاج کررہے تھے ،ویڈیوز موجود ہیں وکلا ء ایمبولینس کو راستہ دے رہے ہیں،ایک مریض کو چیک کروانے کیلئے سٹریچر پر اسپتال کے اندر لے جارہے ہیں۔

اسی احتجاج میں شامل ایک وکیل اسپتال کے اندر داخلے ہونے سے بھی یہ کہہ کر مخالفت کر رہے ہیں ہمارا احتجاج پرامن ہے یہ ویڈیو بھی سامنے آئی ہے لیکن یہ سافٹ امیج نہیں دکھایا گیا بلکہ وکلاء کو تو اندر داخلے کیلئے اشتعال دلایا گیا ۔

وکلاء نے ڈاکٹر کو مارا نہ کسی مریض کا ماسک کھینچا

انھوں نے کہا کہ جب چھت سے اینٹیں پھینکی گئیں تب وکلاء ریسیپشن کے اندر گئے ہیں اس سے ہم انکار نہیں کرتے ، گو کہ یہ بھی غلط بات تھی اس سے ہم انکار نہیں کرتے، مگر ایسا کرنے پر وکلاء کو مجبور کیاگیا۔

انھوں نے کہا کہ کوئی ایک ایسی ویڈیو نہیں آئی جس میں کسی وکیل نے کسی ڈاکٹر کو ماراہو، کسی مریض کا ماسک کھینچا ہو،لیکن ایک ڈاکٹر کی ویڈیو دکھائی گئی کہ وہ کسی کی زندگی بچانے کی کوشش کررہا ہے اس کا مطلب ہے وہاں کیمرہ موجود تھاتو پھر کسی کا ماسک اتارنے کی ویڈیو بھی دکھاتے۔

راجہ یاسر شکیل نے کہا کہ یہ دل کا اسپتال ہے یہاں اگر کوئی روٹین کی اموات واقعہ ہوئی ہیں تو ان کو وکلاء کے کھاتے میں نہیں ڈالا جاسکتا،انھوں نے کہا کہ یہ جو سب کچھ دکھایا جارہا ہے یہ حقائق پر مبنی نہیں ہے۔

انھوں نے کہا جس شخص کی وجہ سے اشتعال پھیلا وہ ڈاکٹر عرفان اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے پھر ویڈ یو شیئر کئے جارہا ہے ، ایک انٹرویو میں وہی ڈاکٹر کہہ رہا ہے ہم نے جوکیا درست کیاہے، اس لئے وکلاء مطالبہ کررہے ہیں کہ حقائق دکھائے جائیں اگر وکلاء غلطی پر ہیں تو دکھائیں، اگر ڈاکٹر غلطی پر ہیں تو وہ دکھائیں اور اگر میڈیا کہیں غلطی پر ہے تو وہ بھی دکھایا جائے۔

اس سوال پر کہ اگرایک ڈاکٹر نے کوئی تقریر شیئر کی ہے سوشل میڈیا پر تو جواب بھی تو ایسا ہی دیا جاتا کیا اسپتال میں داخلے کا اخلاقی جواز بنتا ہے؟ راجہ یاسر شکیل نے کہا کہ سخت تقریر کے مقابلے میں وکیل نے تقریر ہی کی ہے اگر کوئی دھمکی دی ہے تو وہ نہیں دینی چائیے تھی۔

ڈاکٹر وکلاء تنازعہ حل نہ ہونا حکومتی ناکامی ہے

انھوں نے کہا کہ اسپتال میں تشدد کا کوئی ثبوت نہیں ہے، وکلاء نے کسی ڈاکٹر پر تشدد کیا ہو یا ماسک کھینچا ہو ۔

انھوں نے کہا کہ اگر وکلاء کی یہ کہہ کر تضحیک کی جائے کہ فلاں لمبے بالوں والے کو اس طرح مارا ، دوسرے کو اس طرح پھینٹی لگائی تو پھر کیا وکلاء اس کا جواب بھی نہ دیں؟

ان کا کہنا تھا کہ میڈیا جو بھی دکھاتاہے وہ ٹرینڈ بن جاتا ہے اس لئے عوام اسے ہی درست سمجھتے ہیں،انھوں نے کہا کہ اگر آرآئی سی میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا اور اگرمیڈیا ڈاکٹرز کا ساتھ نہ دیتا تو، یا حقائق دکھاتا تو یہ مسلہ دو دن میں صلح صفائی سے حل ہوجانا تھا۔

جنرل سیکرٹری اسلام آباد بار نے وکلاء اور ڈاکٹرز کو تحمل کاجب کہ میڈیا کو سچ دکھانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر جنگیں بھی ہوجائیں تب بھی بات آخرٹیبل ٹاک پر ہی آتی ہے، یہ اتنا بڑا معاملا نہیں تھا اسے اب تک حل ہو جانا چائیے تھا یہ حکومت کی کمزوری ہے۔

انھوں نے کہا کہ ڈاکٹرز ہم میں سے ہیں اور ہم ان میں سے ہیں کوئی باہر کا نہیں ہے،اس معاملے کو حل ہونا چایئے۔

Comments are closed.