شہ رگ کے بغیر

شمشاد مانگٹ

پاکستان میں حکومتوں کے آنے سے زیادہ جانے کے چرچے ہوتے ہیں۔الیکشن کے آخری سال میڈیا کی چال اور سیاستدانوں کی جماعت بدلتی حرکتیں بتا رہی ہوتی ہیں کہ ملک میں آئندہ حکمرانی کس کی ہوگی۔یعنی صرف ایک سال ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ کون سی پارٹی اور کس راستے سے اقتدار کی منازل طے کر رہی ہے اور پھر چار سال تک ہر طرف ایک ہی شور سنائی دیتا ہے کہ حکومت جارہی ہے حکومت جارہی ہے۔پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ دو حکومتوں نے ایک ایک وزیراعظم قربان کرکے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کا ریکارڈ قائم کیا ،البتہ یہ الگ بات ہے کہ دونوں جماعتیں اپنے اپنے وزیراعظم کی قربانی کو ”حلال“ نہیں سمجھتیں۔

موجودہ حکومت نے ابھی پندرہ ماہ پورے کئے ہیں لیکن اسکے جانے کی باتیں یوں ہو رہی ہیں کہ جیسے ہر بندے نے اب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات استوار کرلئے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ صرف اسی سے مشورہ کر رہی ہے کہ موجودہ حکومت کا سامان کب تک باندھ دیا جائے؟۔مولانا فضل الرحمن کے دھرنے نے حکومت مخالف لوگوں کو دوماہ تک”امید“ سے کئے رکھا کہ حکومت کے دن گنے جاچکے ہیں لیکن جیسے ہی مولانا نے اپنا بوریا بستر گول کیا اور ایک اندھی امید سے اپنے ساتھیوں کو باندھ کر نکل گئے۔مولانا صاحب اب فرماتے ہیں کہ حکومت جلد چلی جائے گی،جس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ 35ماہ بعد یقیناً چلی جائے گی۔

پاکستان کے سیاستدان اور دیگر ادارے بھی بہت باکمال ہیں انہیں صرف ملکی سیاسی جوڑ توڑ اور مقدمہ بازیوں اور پھر ڈیلوں،ڈھیلوں کا آئن سٹائن قرار دیا جاسکتا ہے۔ہمارے تمام سیاستدان اور معتبر ادارے ایسے کام سب سے پہلے کرتے ہیں جو شخصی فوائد سے جڑے ہوئے ہیں اورانہیں قوم کے وسیع تر مفاد کی تارسے جوڑ کر قوم کی رگوں میں ایسا کرنٹ چھوڑ دیا جاتا ہے کہ بیچارے عوام بھی اصل حقائق کو بھول کر کانپنا شروع ہوجاتے ہیں۔

5اگست2019ءکو بھارت نے ہمیشہ کی طرح تمام اخلاقی حدیں عبور کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر پر ہمیشہ کیلئے قبضہ کرلیا۔حکومت،اپوزیشن سمیت دیگر تمام معتبر اداروں نے بھارت کے اس غیر قانونی اقدام کی شدید مذمت کی۔5اگست سے5ستمبر تک ایسا لگتا تھا جیسے پاکستانی قوم اور حکومت کا اب مسئلہ کشمیر کے سوا کوئی دوسرا مسئلہ ہی نہیں ہے۔وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں بھی اس سنگین صورتحال کو اٹھایا۔لیکن مقبوضہ کشمیر کے اس غیر قانونی”انتقال“ کے چہلم تک تو ہم نے آسمان سر پر اٹھائے رکھا البتہ پھر رفتہ رفتہ رو دھو کر منہ صاف کئے اور ایک دوسرے کو تسلیاں دیں کہ باقی پاکستانیوں کی زندگی کو بھی سنوارنا ہے،اس طرح شہ رگ پر لگا ہوا زخم کم ہوتا گیا۔

ستم ظریفی دیکھئے کہ جب مسئلہ کشمیر عروج پر تھا تو عین اس وقت مولانا فضل الرحمن اپنا لشکر لیکر نکلے اور پھر بھارت کی ٹی وی سکرینوں پر چھا گئے۔ابھی مولانا فضل الرحمن نے اپنے دھرنے کی دریاں اکٹھی نہیں کی تھیں کہ میاں نوازشریف کے پلیٹلیس گرنا شروع ہوگئے۔اِدھر پلیٹلیس گرتے گئے اور اُدھر مسئلہ کشمیر ہاتھ سے نکلتا رہا۔مقبوضہ کشمیر کے اس غیر قانونی انتقال کی جب بھی داستان لکھی جائے گی تو مورخ لکھے گا کہ جب مقبوضہ کشمیر کا رابطہ دنیا سے کٹا ہوا تھا تو کشمیر کو شہ رگ قرار دینے والے ملک پاکستان کی اشرافیہ یہ طے کر رہی تھی کہ میاں نوازشریف کو کس طرح آزادی دلائی جائے۔

پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ لینے کی دعویدار مسلم لیگ(ن) کو پاکستان کی شہ رگ سے زیادہ میاں نوازشریف کے پلیٹلیس کی فکر پڑی ہوئی ہے اور بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر ہزار سال تک جنگ لڑنے کا اعلان کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی آصف علی زرداری اور فریال بی بی کی بیماری سے متعلق رپورٹیں اٹھائے عدالتوں سے آزادی کی بھیک مانگ رہی ہے۔مورخ یہ بھی لکھے گا کہ مقبوضہ کشمیر پر مستقل قبضے کا بھارت کو جواب دینے کی بجائے قومی سلامتی کے ادارے مولانا فضل الرحمن سے بات چیت کر رہے تھے۔

شہ رگ قرار دئیے جانے والے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ گزشتہ4ماہ سے کیا بیت رہی ہے۔کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے۔البتہ ہندووں نے مسلمانوں کی عزت اور غیرت سے کھیلنے کا اعلان ڈنکے کی چوٹ پر کیا ہے۔کشمیر کے معصوم اور بے گناہ مسلمان کب تک بھارتی جبر کا سامنا کرنے پر مجبور رہیں گے یہکسی کو معلوم نہیں ہے۔البتہ سری نگر کے مسلمانوں پر بھارت نے کھلم کھلا ظلم کیا ہے اور پاکستان نے انتہائی بے حسی کا مظاہرہ کرکے انہیں مایوس کردیا ہے۔مقبوضہ کشمیر کے مسلمان اب دونوں طرف سے مایوس ہیں جن کشمیریوں کے لواحقین پاکستان میںموجود ہیں وہ انکے ذریعے سرینگر اور دیگر کرفیو زدہ علاقوں سے نکل کر جائے امن تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ کیسی بے حسی اور ظلم کی حمایت ہے کہ پاکستان کی حکومت کو اپنی بقاءکی فکر ہے اور اپوزیشن جماعت مسلم لیگ(ن) کو اپنے تاحیات قائد میاں نوازشریف کی زندگی کی فکر ہے جبکہ پیپلزپارٹی کو بھی اپنی قیادت کو آبِ حیات پلانے کی فکر نظر آرہی ہے،مولانا فضل الرحمن اور انکے حامی اقتدار سے دوری کے غم میں مبتلا ہیں اور اگر کسی کو غم نہیں ہے تو مظلوم اور معصوم کشمیریوں کا نہیں ہے۔حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کا رویہ بتا رہا ہے کہ کبھی ایک مسئلہ کشمیر ہوا کرتا تھا لیکن پھر بھارت نے اس پر مکمل قبضہ کرکے یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کردیا ہے۔

بہرحال اس وقت مقبوضہ کشمیر حکمرانوں کی پہلی ترجیح نہیں رہی اور حیرانگی کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ شہ رگ کے بغیر زندگی کا تصور کیسے ہوسکتا ہے؟پاکستان نے اپنی72سالہ زندگی میں کئی اور عجوبوں کی طرح ایک اور عجوبہ کر دکھانے کا بھی عزم کر رکھا ہے کہ شہ رگ کے بغیر بھی جیا جاسکتا ہے۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کے جانے کی باتیں سب کر رہے ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر سے مودی کے جانے کی باتیں کوئی نہیں کررہا۔اہم بات تو یہ ہے کہ حکومت چلی گئی تو ملک سے آکسیجن ختم نہیں ہوگی اور زندگی بحال رہے گی مگر شہ رگ کے بغیر کیسے زندہ رہ پاو گے؟ یہ کوئی سوچنے کو تیار نہیں ہے۔

Comments are closed.