امریکی صدر ٹرمپ غیر اعلانیہ دورے پر افغانستان پہنچ گئے


فوٹو : ٹوئٹر

کابل(ویب ڈیسک)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غیر اعلانیہ دورے پراچانک افغانستان پہنچ گئے، افغان صدر سے ملاقات بھی کی اور کہا کہ امید ہے امریکا کی طویل جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان جنگ بندی پر رضامند ہوجائیں گے۔

صدر ٹرمپ مغربی تہوار تھینکس گیوِنگ کے موقع پر افغانستان پہنچے ہیں، منصب سنبھالنے کے بعد سے اب تک امریکی صدر کا یہ پہلا دورہ افغانستان ہے اور اس سے ایک ہفتہ قبل ہی طالبان اور امریکا کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہوا تھا۔

بتایا گیا ہے کہ امریکی صدر کا دورہ افغانستان سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر خفیہ رکھا گیا، جہاں پہنچنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’طالبان معاہدہ کرنا چاہ رہے ہیں اس لیے ہم ان سے ملاقات کررہے ہیں۔

US President Donald Trump at Bagram Air Field, ( AFP)

ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’ہم کہتے ہیں کہ جگ بندی ہونی چاہیے اور وہ سیز فائر نہیں چاہتے تھے لیکن اب وہ بھی جنگ بندی چاہتے ہیں اور میرے خیال سے اب کام ہوجائے گا‘۔

طالبان رہنماؤں نے برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں گزشتہ ہفتے کے اختتام سے امریکی عہدیداروں کے ساتھ ملاقاتیں جاری ہیں اور ممکن ہے کہ وہ جلد مذاکرات بحال کردیں۔

امریکی صدر کو لانے والا ایئر فورس کا طیارہ جمعرات کی شام بگرام کے ہوائی اڈے پر اترا جس میں ان کے ہمراہ وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ او برائن، معاونین اور سیکریٹ سروس کے ایجنٹس موجود تھے جبکہ نگرانی کرنے والے 2 چھوٹے طیارے بھی ساتھ پرواز کررہے تھے۔

امریکی صدر نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی اور امریکی فوجیوں کو ’ٹرکی‘ (مرغی کی طرح کا ایک پرندہ) کھانے کے لیے پیش کیا جس کے بعد ان کے ساتھ بیٹھ کر تھینکس گیونگ تہوار کا ڈنر کیا۔

اس موقع پر انہوں نے افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کے ساتھ گفتگو کی اور ان کے ساتھ تصاویر بھی لیں۔

افغانستان پہنچنے پر امریکی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملے نے ان کا استقبال کیا۔

خیال رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان گزشتہ برس باضابطہ طور پر بات چیت کا آغاز ہوا تھا، تاہم رواں برس ستمبر میں طالبان حملے میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان رہنماؤں کے ساتھ ملاقات منسوخ کرکے مذاکراتی عمل ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

تاہم طالبان کی جانب سے اغوا کیے گئے امریکی اور آسٹریلوی پروفیسرز کی رہائی کے بعد امن عمل کی بحالی کے امکانات روشن ہوئے تھے۔

دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے امریکی صدر سے ملاقات کے بعد لڑائی روکنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ’اگر طالبان امن معاہدے کے حوالے سے سنجیدہ ہیں تو انہیں جنگ بندی قبول کرنا چاہیے‘۔

یاد رہے کہ امریکی شہر نیویارک میں 11 ستمبر 2011 کو ہونے والے حملے کے بعد افغانستان میں امریکا نے چڑھائی کردی تھی اور اس کے بعد سے نیٹو دستے وہاں موجود ہیں، اس جنگ کے دوران 2400 امریکی فوجی قتل ہوچکے ہیں۔

جنگ کے اختتام کے لیے ممکنہ معاہدے کے تیار کردہ مسودے میں غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بدلے طالبان کی جانب سے اس بات کی ضمانت موجود تھی کہ وہ امریکا یا اس کے اتحادیوں کے خلاف حملے کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

Comments are closed.