سوچ میں تبدیلی کیسے آئی؟
ضیغم عباس
سابقہ بی ایل اے کمانڈرز کا ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا بلوچ علیحدگی پسندی میں غیر ملکی مداخلت بھی بے نقاب کی، ایک کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے سابقہ ‘کمانڈر’ نے انکشاف کیا ہے کہ یہ اور دیگر مسلح تنظیمیں کس طرح علیحدگی پسند مہم چلا رہی تھیں۔
نجيب ﷲ عرف درویش نے ایک پریس کانفرنس میں یہ بات کہی، جہاں انہوں نے اور ایک اور سابقہ بی ایل اے کمانڈر عبدالرشید عرف خدای داد عرف کماش نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہتھیار ڈال دیے۔ انہوں نے مین اسٹریم سیاست میں شامل ہونے اور آئین پاکستان کے دائرے میں رہتے ہوئے پرامن جدوجہد کرنے کا اعلان کیا۔
اس موقع پر صوبائی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی میر ظہور احمد بلیدی، وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے کھیل و امور نوجوانان مینا مجید بلوچ، ڈی آئی جی کوئٹہ اور سی ٹی ڈی چیف اعتزاز احمد گورایہ بھی موجود تھے۔
نجيب ﷲ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھی کس طرح کالعدم بی ایل اے اور بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے ساتھ شامل ہوئے، اور پھر ان کی سوچ میں تبدیلی کیسے آئی۔
نجيب ﷲ نے کہا۔“میں اور میرے ساتھی بعد میں اس نتیجے پر پہنچے کہ دراصل ہمیں غیر ملکی طاقتوں کے مفادات کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔ اسی وجہ سے ہم نے ان تنظیموں سے علیحدہ ہو کر قومی دھارے میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا،”
نجيب ﷲ نے بتایا کہ ان تنظیموں میں “ذہن سازی کی تربیت” اور ان کے نظریاتی مواد کا بڑا کردار تھا، جو بلوچستان کے مختلف علاقوں سے آنے والے نوجوانوں کو برین واش کرنے میں استعمال ہوتا تھا۔
انہوں نے بتایا“یہ دو قسم کی تربیت دیتے ہیں— ایک جسمانی تربیت جو اسلحہ چلانے اور روزانہ صبح ورزش کرنے پر مبنی ہوتی ہے، جیسے فوج میں ہوتی ہے، لیکن اصل اہمیت ذہنی تربیت کی ہوتی ہے،” ۔
نجيب ﷲ نے کہا کہ وہ 2005 میں علیحدگی پسندی کی تحریک کا حصہ بنے، جب ان کے ایک دوست، جو کالعدم بی ایل ایف کا کمانڈر تھا، نے بلوچستان کی صورتِ حال پر بات چیت کی۔
انہوں نے مزید بتایا“جب وہ مارا گیا تو میں بلوچ ریپبلکن پارٹی میں شامل ہو گیا کیونکہ مجھے سیاست میں دلچسپی تھی۔ بعد میں میں پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا رکن بن گیا،” ۔
انہوں نے کہا کہ 19 سال تک ان تنظیموں سے وابستہ رہنے کے بعد انہیں بی ایل اے کی اصل حقیقت کا پتہ چلا، جس کے بعد انہوں نے ریاست کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کیا۔
نجيب ﷲ کا کہنا تھا“میں ان پڑھ تھا، اور انہوں نے مجھے پاکستان کے خلاف سازش کرنے کے لیے برین واش کیا۔ اُس وقت میری عمر 14 یا 15 سال تھی،” ۔
“ہماری جدوجہد پاکستان سے علیحدگی اور بلوچ نوجوانوں کو ریاست کے خلاف کرنے پر مبنی تھی، اور میں بھی اسی نظریے کے تحت کام کر رہا تھا۔”
نجيب ﷲ نے انکشاف کیا کہ وہ غیر ملکی خفیہ اداروں کے ایجنٹوں سے بھی رابطے میں رہے، لیکن ان کا اصل مقصد بلوچ آزادی نہیں بلکہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنا تھا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ “یہ ایجنٹ ہم سے کہتے تھے کہ انہیں ہماری آزادی میں کوئی دلچسپی نہیں، بلکہ وہ صرف پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں،” ۔نجيب ﷲ نے بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے رہنماؤں پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ بیرون ملک پُرتعیش زندگی گزار رہے ہیں۔
“زیادہ تر تنظیموں کے رہنما بیرون ملک مقیم ہیں، جبکہ پہاڑوں میں لڑنے والے جنگجوؤں کے پاس کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی بھی نہیں،” انہوں نے کہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ جنگجو کسی جھڑپ میں زخمی ہو جائیں تو ان کا کوئی علاج نہیں ہوتا، جبکہ بلوچ علیحدگی پسند رہنماؤں کے اہلِ خانہ کو بہترین طبی سہولیات میسر ہیں۔
نجيب ﷲ نے اپنے سابقہ ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، “یہ سال آپ کی زندگی کا سب سے قیمتی وقت ہے۔ میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ اس پراکسی جنگ کا حصہ نہ بنیں اور ایک پرامن زندگی گزاریں۔”
سوچ میں تبدیلی کیسے آئی؟
Comments are closed.