پائتھاگورس کا پیالہ اورپاکستانی کشکول

51 / 100

مقصود منتظر

جن دوستوں نے ریاضی ہلکی پھلکی بھی پڑھی ہو وہ پائتھاگورس کے نام سے ضرور واقف ہوں گے۔ پائھا گورس مشہور یونانی میتھا میٹیشن اور فلاسفر تھا۔۔۔ جیومیٹری میں ٹرائینگل سے متعلق ان کے تھیورم کو خاص مقام حاصل ہے۔

خیرہمارا مدعا ریاضی یا وہ تھیورم نہیں بلکہ پائتھا گورس کا وہ پیالہ جو زیادہ مقبولیت حاصل نہ کرسکا۔ اس کی وجہ کیا ہے؟یہ ایک انتہائی دلچسپ کہانی ہے جس میں ہم انسانوں کیلئے اہم سبق کے ساتھ ساتھ ایک بڑا المیہ بھی چھپا ہوا ہے۔

پائتھا گورس کا کپ ایک غیرمعروف ایجاد ہے۔ مٹی کا یہ برتن کپ آف ٹیمپرنس (مزاج کا کپ) بھی کہلاتا ہے۔

یہ کپ عام پیالے کی طرح ہی دکھائی دیتا ہے البتہ اس کے بیچ میں ایک کالم بنا ہوا ہے جس کے اندر ایک مڑا ہوا چینل ہے۔ یہ کالم کپ کی سطح سے تھوڑا کم ہے۔

کالم کے اندرکا چینل ( ٹیوب ) ایک حصے کو پیالے کے نچلے حصہ میں لایا گیااور دوسرے سرے کو ایک چھوٹے سے سراخ سے نکالا جاتا ہے۔ کپ کی اندرونی دیوار پر ایک لکیر(نشان) بھی موجود ہے جو چینل کی سطح سے تھوڑا نیچے ہے۔۔

یہ سائنسی پیالہ فطرت کےاصول پرکام کرتا ہے۔ جب تک پانی ،میٹھا مشروب یا کوئی مائع لیکر سے نیچے ہے اس کپ کو پینے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔لیکن جونہی کپ مکمل بھر جاتا ہے یا مائع نشان والی لائن کراس کرتاہے تو کپ خود بخود خالی ہوجاتا ہے ۔

دراصل یہاں کشش ثقل (گریوٹیشن) اور دباو (پریشر)کا اصول اپنا کام دکھاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے لکیر کو چھونے والا سارا پانی یا کوئی اور مشروب ،مڑے ہوئے چینل سے نیچے آکر سراخ سے باہر نکل جاتی ہے ۔

پیتھا گورنس نے یہ منفرد پیالہ کیوں بنایا ۔ اس سوال سے متعلق مختلف خیال پائے جاتے ہیں ۔ بعض کا ماننا کہ پیتھاگورس نے اپنے طالب علموں کو اعتدال کی طرف بلانے اوربے تحاشہ شراب نوشہ سے چھٹکارا دلانے کیلئے یہ پیمانہ بنایا۔

بعض کہتے ہیں اس سائنسدان نے لالچی لوگوں کو سبق سکھانے کیلئے یہ کپ ایجاد کیا تھا.

بہر حال جتنے منہ اتنی باتیں مگر ایک بات پکی ہے کہ پیالہ آج بھی یونان ، قبرص اوردیگر ممالک میں پایا جاتا ہے اور طبی اصول کے مطابق ہی کام کرتا ہے.. یعنی جو بھی اس پیالے میں مقررہ حد سے زیادہ مشروب ڈالتا ہے تو وہ مشروب چیمبر سے نکل کر ساری خارج ہوجاتی ہے.

عمومی طور پر یہ منفرد ایجاد لوگوں کو یہ سمجھا رہا کہ حد سے تجاوز نہ کرو… لالچ نہ کرو اور اتنہا حصہ لو جو تمہارا حق ہے. اس میں معمولی بھی تجاوز کرو گے تو خسارہ مقدر بن جائے گا…

سولہویں صدی کے ریاض دان کے ایجاد کردہ اس پیالے کا پاکستان کی معاشی کشکول سے کافی مسابقت ہے…

کیونکہ سمجھ یہ آرہا ہے کہ حکومتوں کشکول پیتھاگورس کے پیالے کے طبی اصول کی طرح کام کررہا ہے.. ماہرین معاشیات کے تجزیوں و تبصروں اور قرض در قرض کے اعداد و شمار سے معلوم ہورہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادروں اور تکڑے دوست ممالک کے سامنے پھیلائے جانے والے اس معاشی پیالے میں بھی ایک چیمبر ہے.

ایک حد تک استعمال کرنے کیلئے ایک لکیر کا نشان ہے اور یہ اصول ہے کہ جب بھی اس پیالے میں مقررہ حد سے زیادہ قرض ڈلوا دو گے تو کشش ضرورت (یعنی حکمران اور مراعات یافتہ طبقے کی شاہ خرچیوں) اور مالیاتی دباو (یعنی عالمی مالیاتی اداروں کی بے جا اور سخت شرائط) کے باعث یہ ڈالروں سے بھرتے ہی یکم دم خالی ہوجاتاہے۔

مملکت کے وجود سے لیکر آج تک آئی ایم ایف سے قرض کے متعدد پروگرام لیے گئے. دیگر مالیاتی ادورں اور دوست ممالک کے سامنے بھی درہم اور ڈالر ز کیلئے ہاتھ پھیلا گیا. امداد مال خوب ملا لیکن اس سے آج تک ملک کی لڑکھڑاتی معیشت نہیں سنبھلی.

دراصل حکومتیں جو بھی آئیں سب نے ضرورت سے زیادہ قرض لیکر خوشحالی لانے کے بجائے مملکت کو دلدل میں مزید پھنسا دیا. بھیک یا قرض میں ملے ڈالروں اور درہموں کو اپنا سیاسی قد کاٹ بڑھانے، اپنی بے لگام خواہشات کو پورا کرنے اور شاہ خرچیوں پر خرچ کیے.. اور اس سب کا بوجھ عوام پر ڈالا گیا.

کہیں اگر حکمرانوں نے کبھی خوف خدا کی وجہ سے ہاتھ ہولے رکھا تو آگے اژدھا کی طرح منہ کھولے مراعات یافتہ طبقے نے غیر ملکی مالی امداد کی ہڑی پسلی تک نوچ لی.

عوام اور ملک کیلئے یہ کشکول خوشحالی اور بہتری کا ضامن نہیں بنا. بلکہ ہر پانچ سال یا اس سے کم زیادہ عرصہ کے بعد عذاب بنا. مشکلات کا باعث بنا. مہنگائی کا سبب بنا. بیروزگاری اور دیگر پریشانی کی وجہ بنا.

پائتھاگورس کا پیالہ اورپاکستانی کشکول

Comments are closed.