نواز شریف کی ضمانت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

اسلام آباد(ویب ڈیسک) ) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا نواز شریف کی صحت خراب ہے یہ حساس معاملہ ہے، پنجاب حکومت کے نمائندے نے گزشتہ سماعت پر حقائق چھپائے، میڈیکل رپورٹ میں اب بھی انجیوگرافی کا کہا گیا ہے۔

انھوں نے کہا نواز شریف کی بیماری کا علاج جیل میں ممکن نہیں، نواز شریف کی جان کو لاحق متعدد بیماریوں سے خطرہ ہے، انجیو گرافی سے بیماری اور علاج تجویز کیا جاسکے گا، کسی میڈیکل رپورٹ میں کوئی تضاد نہیں۔

نیب نے اپنے دلائل میں کہا کہ نواز شریف کا علاج ہو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں، جس پر عدالت نے کہا پاکستان میں یا بیرون ملک ؟ نیب پراسیکیوٹر نے کہا لاہور میں ہسپتال موجود ہیں، جس رپورٹ کے چھپانے کا دعویٰ کیا گیا وہ عدالتی ریکارڈ پر آ چکی ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا رپورٹ چھپانے والے کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا میڈیکل بورڈ کے تجویز تمام علاج جناح اور سروسز ہسپتال میں موجود ہیں، پمز اور پی آئی سی سمیت کئی ہسپتالوں میں یہ سارے علاج موجود ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا بتائیں پاکستان کے کون سے ہسپتال میں علاج ہو سکتا ہے ؟ جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا علاج سے پہلے نواز شریف کا اس ذہنی دباؤ سے باہر آنا ضروری ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا نواز شریف اب تو جیل میں نہیں ہسپتال میں ہیں۔ جس پر خواجہ حارث نے کہا ہسپتال میں بھی جائیں تو وہ سب جیل بن جاتی ہے۔

نیب نے نواز شریف کی درخواست ضمانت کے قابلِ سماعت ہونے پر اعتراض اٹھایا۔ نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ نے کہا نواز شریف کی درخواست قابل سماعت ہی نہیں، نواز شریف کا کیس ہارڈشپ اور انتہائی نوعیت کا نہیں بنتا۔

سزا معطل کرنے اور ضمانت دونوں کے لیے معیار ایک ہی ہے، مرکزی اپیلیں جب سماعت کے لیے مقرر ہوں تو یہ درخواست نہیں سنی جا سکتی، عدالت کو دیکھنا ہو گا کہ کیا نواز شریف کے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا جیل حکام نے محض واٹس ایپ پر میاں صاحب کی ہسپتال منتقلی کا کہا۔ جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا تو کیا ہوا واٹس ایپ اطلاعات کی فراہمی کا ایک ماڈرن ٹول ہی ہے، ایمرجنسی میں میسج پہنچانے کے لیے واٹس ایپ استعمال ہو سکتا ہے۔

عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔

Comments are closed.