امریکہ نے سلامتی کونسل کا3بار اعلامیہ رکوایا، معاملا جنرل اسمبلی چلا گیا


اسلام آباد(محبوب الرحمان تنولی)اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل مخالف پوائنٹس پر مبنی قرارداد کو امریکہ کی طرف سے مسلسل 3بار روکے جانے کے بعد ممبر ممالک نے مجبوراً جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس بلایاہے۔

سفارتی ذرائع کا کہناہے کہ امریکہ نے فلسطین پر اسرائیل کے بے رحمانہ حملوں کے بعد ایک بار سلامتی کونسل کا اجلاس یہ کہہ کر موخر کرایا کہ اس معاملے کو بیک ڈور پلومیسی سے حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں پھر یکے بعد دیگر ے3بار اعلامیہ رکوایا۔

یہ عمل ایک ہفتہ میں لگاتا ر تین بار دہرائے جانے کی وجہ سے سلامتی کونسل59بچوں سمیت 200سے زائد فلسطینیوں کی شہادت کے باوجود فلسطینیوں پرحملے رکوانے کا مشترکہ اعلامیہ جاری نہ کرسکی۔

سفارتی ذرائع کاکہناہے کہ بات چیت کے عمل کے دوران یہ طے پا گیا کہ پیر کو مشترکہ اعلامیہ جاری ہو جائے گالیکن کوشش کے باوجود15رکنی پلیٹ فار م سے امریکہ نے اتفاق نہ کیا تو اعلامیہ پھر روکنا پڑا۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اعلانیہ بھی کہا تھا کہ یہ امریکہ ہی ہے جو کہ سلامتی کونسل کو یک آواز نہیں ہونے دے رہا ہے جس کی وجہ سے اسرائیل کو حملے روکنے کا پیغام دینے میں دشواری ہورہی ہے۔

ذرائع کا کہناہے کہ چین اور تیونس کی طرف سے مشترکہ اعلامیہ میں تشدد کے خاتمہ ،عام شہریوں و بچوں کی حفاظت یقینی بنانے اور عالمی قوانین کے احترام پر مبنی بے زرر مطالبے پر مبنی الفاظ بھی امریکہ شامل کرنے پر راضی نہ ہوا۔

سلامتی کونسل کے ممبر ممالک نے امریکہ کے ویٹو سے بچنے کیلئے جنرل اسمبلی سے پیغام دینے کا فیصلہ کیا ہے اور 20کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ہونے والا اجلاس اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔

دوسری طرف پیرس میں فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں نے مصری ہم منصب عبدالفتاح السیسی کے ہمراہ مشترکہ طورپر ،پُرتشدد واقعات میں اضافے اور شہری آبادی کے متاثر ہونے پر تشویش کااظہار اور جھڑپیں ختم کرنے کا مطالبہ کیاہے۔

سلامتی کونسل سے واضح پیغام سامنے نہ آنے کے بعد جنرل اسمبلی کااجلاس اہمیت اختیار کرگیاہے کیونکہ اس میں زیادہ امکان یہی ہے کہ قرار منظور ہو جائے گی اور فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے عالمی سوچ بھی واضح ہو جائے گی۔

سفارتی ذرائع کا کہناہے کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھی اگر امریکہ نے مخالفت کی اور اسرائیل کے موقف کا ساتھ دیا تو امکان ہے کہ ان کے حامی ممالک بھی ان کا ساتھ دیں گے تاہم دنیا کی اکثریت اسرائیلی حملوں کے خلاف ہے۔

Comments are closed.