شہباز شریف کو حنیف عباسی کی بطور معاون خصوصی تعیناتی پر نظرثانی کا حکم

فوٹو: فائل

اسلام آباد(زمینی حقائق ڈاٹ کام )سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی درخواست پراسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیراعظم شہباز شریف کو حنیف عباسی کی بطور معاون خصوصی تعیناتی پر نظرثانی کا حکم دے دیا۔

سلام آباد ہائی کورٹ میں شیخ رشید کی وزیر اعظم کے معاون خصوصی حنیف عباسی کے خلاف درخواست پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سماعت کی اور اس دوران عدالت نے شیخ رشید کو روسٹرم پر بلا لیا۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے شیخ رشید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدالتیں سب کیلئے ہیں، شاید لوگوں کویقین نہیں ہے، جلسوں میں بار بار یہ کہا جا رہا عدالتیں رات 12بجے کیوں کھولی گئیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی کا شاید عدالتوں پراعتماد نہیں، اگرعدالت پراعتماد ہے تو یہ عدالت کیس سنے گی اور بھی عدالتیں اور ججز ہیں جو آپ کے کیسزسن سکتے ہیں۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے یہ بھی کہا کہ عمران خان کا اگراعتماد نہیں ہے تو بطور چیف جسٹس میں معذرت کرکے کسی اورعدالت میں کیس بھیج دیتا ہوں، جلسوں میں کہا جاتا ہے کہ عدالتیں آزاد نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے 2014 کے ایک فیصلہ کا حوالہ دیا جس میں رات 11بجے زیر حراست پی ٹی آئی ورکر کو رہا کرنیکا حکم دیا تھا، رول موجود ہیں، چیف جسٹس کسی بھی وقت کیس ٹیک اپ کرسکتے ہیں، آپکااعتماد ہے تویہ عدالت کیس سنے گی،چیئرمین پی ٹی آئی سیبھی پوچھئے۔

جواب میں شیخ رشید نے کہا کہ عدالت پراعتماد ہے، اسی لیے پیش ہوا،عمران خان سے بات کروں گا، چیف جسٹس نے ایک بار پھر کہا دل سے عدالتوں کا احترام ہونا چائیے، آپ کل تک سوچ لیں، جس پر شیخ رشید کا کہنا تھا کہ میں سوچ کرآیا ہوں۔

شیخ رشید کے وکیل نے دلائل دیے کہ سزا یافتہ مجرم کو وزیراعظم کا معاون خصوصی بنایا گیا، چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیاسزا معطل ہوئی ہے، جس پر وکیل نے بتایا جی سزا معطل ہے، اس کے باوجود معاون خصوصی بنا دیا گیا ہے۔

شیخ رشید کے وکیل نے کہا کہ 21 جولائی2018کوحنیف عباسی کوسزاسنائی گئی، جس پر چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ سزا معطلی کے بعد کوئی سماعت نہیں ہوئی، تو وکیل کا کہنا تھا کہ 4 سال ہوگئے ابھی تک سماعت نہیں ہوئی۔

وکیل کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایساآفس ہے جسے آئین کے آرٹیکل260کے ذریعے تسلیم کیاگیا، جن کی شناخت خودآئین کی دفعات کے ذریعے کی گئی ہے، عہدے پر فائزافراد کو فطری طورپر بڑی ذمہ داری کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔

مزید کہا کہ تقرری کرنے والی اتھارٹی اس معاملے میں وزیر اعظم ہے، عوامی دفاترپراعلیٰ اوصاف،مضبوط اخلاقی ریشہ رکھنے والے کو تعینات کیاجائے، ایک شخص پرمنشیات کے کاروبارکی سزاجواخلاقی پستی پرمشتمل ایک جرم ہے، ایساشخص اعلیٰ عہدیپرفائزہونے کیلئے موزوں نہیں ہوسکتا۔

دلائل میں کہا گیا کہ ٹرائل کورٹ نے حنیف عباسی کومجرم قراردیکرسزاسنائی تھی، لاہورہائی کورٹ نے اپیل میں صرف حنیف عباسی کی سزاکومعطل کیا، جس کا مطلب ہے کہ وہ اب بھی سزا پر قائم ہے، حنیف عباسی ایک مجرم ہونے کی وجہ سے عہدے کے لیے نااہل ہوجاتا ہے۔

وکیل نے موقف اپنایا کہ معاونین خصوصی کی تقرری وزیر اعظم کی صوابدیدبظاہرضابطہ اخلاق یاحدودکے بغیر ہے، وزیر اعظم نے اختیارات کاغلط استعمال کیا حکومت کی حکمرانی کابھی مذاق اڑایا، حنیف عباسی کی تقرری قانون،آئین اورسپریم کورٹ فیصلے کیخلاف بھی ہے۔

وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ سیکرٹری کابینہ ڈویژن سے پوچھے حنیف عباسی کوکس قانون کے تحت معاون خصوصی مقررکیاگیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزیراعظم کوحنیف عباسی کی تعیناتی پرنظر ثانی کاحکم دیتے ہوئے تمام فریقین کو نوٹسز جاری کردیئے اورجواب طلب کر لیا، سماعت 17مئی تک کے لیے ملتوی کر دی۔

Comments are closed.