بے چینی،اضطراب اور سکون قلب

47 / 100

فہیم خان

خواب چاہے ہم کو یاد رہیں نہ رہیں، وہ موڈ بدلنے والے واقعات کو قبول کرنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ اس طرح وہ ناگوار موڈ کو بدل دیتے ہیں۔اگر مسئلہ زیادہ الجھا ہوا نہ ہو تو پھر ایک ہی رات کی نیند سے ہم اس سے نجات پا لیتے ہیں۔ یوں جب صبح ہم بیدار ہوتے ہیں تو ہمارا موڈ گزرے ہوئے دن کے مقابلے میں بہتر ہوتا ہے۔

موڈ ایسا جذبہ ہے جو ہمارے ذہنوں پر طاری ہو کر ٹھہر جاتا ہے۔ گھنٹوں، دنوں اور کبھی کبھی ہفتوں تک چھایا رہتا ہے۔ موڈ خوشگوار ہو تو کیا ہی بات ہے مگر جب اداسی، پریشانی، مایوسی کا موڈ طاری رہے تو وہ اذیت بن جاتا ہے۔

یوں تو کہا ں جاتاہے کہ جس چیز کو لیکر آپ پریشان ہوں اس کو ذہن سے نکال باہر پھینکیں یا پھراس بارے میں کسی سے بات کی جائے لیکن بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ ہماری بات سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔عموماً ہم اکثر اس وقت مایوسی کاشکار ہوجاتے ہیں
جب ہماری سوچ صرف یک طرفہ ہوجاتی ہے۔

ہم صرف اپنے جذبات کو ہی مدنظر رکھتے ہیں اور کوئی شے کھو جانے پر خود کوقصوار ٹھہرانا شروع کردیتے ہیں اس سے یہ ہوتاہے کہ ہم اپنی تکلیف یا بوجھ کم تونہیں کرسکتے الٹا خود کوواقعی بدقسمت خیال کرنے لگ جاتے ہیں جبکہ اگر مجموعی طور پر مثبت انداز کو اپنائیں تو تو پھر واقعی خود کو ہم خوش باش محسوس کرنے لگیں گے.

یہ زندگی پر ہمارا حق بھی ہے۔کیونکہ زندگی بہت بڑی نعمت ہے، اگر اپنے اردگرنظردوڑائی جائے تو معلوم ہوگاکہ روزمرہ امور کے دوران اکثر وبیشترگھروں یا آفسز میں یاپھر دوستوں کی ایک دوسرے سے کسی بات پر تلخ کلامی ہوجاتی ہے۔

بسااوقات تو معاملہ اسی وقت رفع دفع ہوجاتاہے لیکن بعض اوقات بات بہت دور تک چلی جاتی ہے کچھ معاملات میں صرف معافی مانگی جاسکتی ہے لیکن کچھ کاازالہ ناگزیر ہوتاہے جیسے ہماری زبان یاالفاظ سے کسی کا دل دکھا ہے تو اس سے ہر صورت بغیر کسی صفائی کے معافی مانگنی ہوگی وہ معاف کرے یا نہ کرے.

ہمارے ضمیر کو کسی حد تک سکون مل جائے گا، درحقیقت سکون سے مراد یہ ہے کہ آپ جن حالات سے گزر رہے ہیں وہ آپ کو اچھے لگیں، آپ مطمئن ہوں۔زندگی کچھ دینے اور کچھ لینے کا نام ہے۔ اگر آپ کسی کو خوشی دیں گے تب ہی آپ امید رکھ سکتے ہیں کہ کوئی آپ کی بھی خوشی کا سبب بنے گا۔

بلاشبہ سکون انسان کے اندر ہوتا ہے اور جو شخص اندر سے خوش ہوتا ہے۔وہ اپنے باہرکے لیے بھی سکون اور مسرت کا سامان پیدا کر لیتا ہے کیونکہ سکون و اطمینان کا سرچشمہ انسان کی اپنی ذات میں پوشیدہ ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہم دوسروں میں سکون تلاش کرتے ہیں.

مگر اپنے دل کے اطمینان کی دوا جو خود ہمارے اندر موجود ہے، اس کا شعور نہیں کر پاتے ۔بے چینی اوراضطرابی کے عالم میں سکون نصیب نہیں ہوتا، بلکہ احسان کرکے ، خدمت کرکے ، آپس کی ہمدردی ،درگزر کرنے اور خوش اخلاقی کے ذریعہ دل کا سکون نصیب ہوتا ہے۔

کبھی کبھی جب ہر طرف سے مایوسی ہو اور انسان ایسی بند گلی میں کھڑا ہو جہاں سے نکلنے کا کوئی رستہ نہ ہو تو اپنے خدا کے حضور صرف ایک سجدے سے روح کو جو سکون اور لطف ملتاہے وہ کائنات کی کسی اور چیز میں نہیں۔

Comments are closed.