آصف علی نے کتنے برے حالات دیکھے؟دل ہلا دینے والا انٹرویو

57 / 100

اسلام آباد( سپورٹس ڈیسک)نیوزی لینڈ اور افغانستان کے خلاف ٹاپ پرفارمنس دے کر شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے آصف علی کی زندگی کسمپرسی اور برے حالات کا مجموعہ رہی، فیکٹری میں کام کرنے والا لڑکا اچانک کرکٹ کے عالمی افق پر چھا گیا۔

آصف علی کا ایک انٹرویو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہاہے جس میں قومی ہیرو نے کرکٹ کی شروعات کے بارے میں دل ہلا دینے واقعات کا تذکرہ کیاہے ،کہتے ہیں سابق کپتان سلمان بٹ اور اعجاز احمد کے ساتھ کھیلا تو 20اوور کے میچ میں 10اوورز میں سنچری کرکے ٹارگٹ پورا کرلیا تھا۔

آصف علی نے بتایا کہ ہدف132کاتھا جب میں نے وننگ شاٹ کھیلا تو میرے ساتھ آنے والے دوسرے اوپنر سلمان بٹ 9رنز پر کھیل رہے تھے ، میر ی اننگزدیکھ کر وہ تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کا کہنا تھا کہ کرکٹ تو تم کھیلتے ہو ہمیں تو آج تک کھیلنی ہی نہیں آئی۔

آصف علی کی زندگی کی کہانی سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہی ہے ، ویڈیو میں آصف علی کرکٹ کے راستے میں پیش آنیوالی مشکلات کا ذکر رہے ہیں آصف علی بتا رہے ہیں کہ کراچی ٹورنامنٹ ہو رہا تھا اور میرا نام فیصل آباد کی ٹیم میں آیا، اس میچ میں محمد حفیظ نے سینچری کی تھی۔

پہلی بار50ہزار روپے کاچیک ملا تو سوچ میں پڑ گیا، رکھوں کہاں؟

کہتے ہیں بعد میں ان کا آسٹریلیا ٹور میں کم بیک ہوا تھا ،اس ٹورنامنٹ میں ، میں ساتھ تھا لیکن میں نے کوئی میچ نہیں کھیلا ، ہماری ٹیم رنر اپ رہی ، مجھے 55 ہزار روپے کا چیک ملا تھا ، اسوقت میری تنخواہ 5 ہزار تھی تو میں سوچ میں پڑ گیا تھا کہ اتنے پیسے کہاں رکھوں؟

آصف علی کا کہنا تھا کہ میں وہ چیک رات کو جیب میں ہی ڈال کر سو گیا کہ کہیں گم ہی نہ ہو جائے ، اس کے بعد دوسرے ٹورنامنٹ میں نام آیا تو میں پھر سے کھیلنے چلا گیا تاہم ٹورنامنٹ پر جانے سے پہلے میں نے 50 ہزار روپے کا سیکنڈ ہینڈ ہونڈا 125 خرید لیا۔

ان کا کہنا ہے کہ پانچ دن کے بعد جب میں واپس آیا ، میرے پاس ایک یاماہا ہوتی تھی جو کہیں بھی چلتی چلتی بند ہو جاتی تھی ، واپس آکر بھائی سے پوچھا کہ موٹر سائیکل کہاں ہے تو وہ کہنے لگا کہ یاماہا میں نے کباڑیے کو 5 ہزار میں بیچ دی۔

میں نے بھائی سے کہا کہ اس نے بڑے مشکل وقت میں ساتھ دیا ہے ، وہ کہنے لگا کہ راستے میں پڑی رہتی تھی اور اس پر مٹی بھی رہتی تھی ، میں نے کہا کہ تمہیں اس کی قدر کا کیا پتا ، وہ موٹر سائیکل میرے دادا نے لی تھی اور اس وقت اسے دو ر دور سے لوگ دیکھنے آئے تھے ۔

میرے والد نے بھی کہا کہ پڑی رہنے دیتے بیچنی نہیں چاہیے تھی، آصف علی کا کہناتھا کہ 125 پر میں میچ کھیلنے جایا کرتا تھا ، مرزا بھائی نے ون ڈے میں مجھے سوئی گیس کی ٹیم میں لیا ، یہ ٹورنامنٹ 25 دن چلنا تھا۔

فیکٹری میں کام کرتا تھا کرکٹ کی وجہ سے نوکری چھوڑنی پڑ ی

ون ڈے ٹورنامنٹ کے بعد آیا اور جب کام پر گیا تو مالک نے پوچھا کہ تو مہینے بعد آیاہے ، میں نے بتایا کہ میں کرکٹ کھیلتاہوں اور مجھے فخر ہے کہ میرا نام سوئی گیس کی ٹیم میں آیا ہے ، جس میں مصباح ، حفیظ جیسے بڑے کھلاڑی کھیلتے ہیں، یہ میرے لیے فخر کی بات ہے۔

میری بات سن کر اس نے جواب دیا ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ، ہم اسے برداشت نہیں کر سکتے ، کرکٹ کھیل لو یا پھر کام کرلو ،
میں نے ان سے کہا کہ مجھے ایک دو دن کا وقت دیں ،ابھی نوکری سے نہ نکالیں پھر میں کنفرم کردوں گابعد میں اسے بتا دیا کرکٹ کھیلوں گا۔

فیصلہ اس لئے کیاکہ میرا دل کر رہا تھا کہ کرکٹ کھیلنی ہے ، جن لوگوں نے پوری دنیا کو آگے لگایا ہواہے ، انہوں نے مجھے اپنی ٹیم میں لیا ہے ، تو مجھے کرکٹ کھیلنی چاہیے اس دوران میں نے ان فیکٹری والوں سے کہا کہ جب میرا میچ ہوگا تو میں اوور ٹائم لگا کر چلا جایا کروں گا ۔

آصف علی نے کہا کہ میں نے مالکوں سے کہاکہ آپ مجھے اوور ٹائم کے پیسے بھی نہ دینا ،انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا، پھر میں نے مجبوراٰ وہ نوکری چھوڑ دی ،ٹیپ بال سے پیسے کمائے لیکن ان سے مزا نہیں آیا۔

ایک دن ٹیپ بال کے میچ میں سرگودھا کے اسد بھائی کو نے مجھ سے کئی چھکے کھا کر مجھے آوٹ کردیا تو میں باہر آیا تو اسد بھائی نے مجھے بلایا ، اس وقت میں فیصل آباد کے کیمپ میں تھا ، میں نے دو بچاس کررکھے تھے، وہ مجھے کہنے لگے کہ میں نے تمہیں کیمپ میں دیکھا تھا۔

انھوں نے میری تعریف کرتے ہوئے کہا کہ تم بہت اچھا کھیلتے ہو، میں نے کہا مجھے بھی نہیں پتا کہ میں اچھا کھیلتا ہوں ، انہوں نے پوچھا تم ٹیپ بال میں سیزن کے کتنے پیسے کما لیتے ہو، میں نے کہا 60 سے 70 ہزار روپے تو انھوں نے کہامیں 8 سے 9لاکھ روپے کماتا ہوں۔

آصف علی نے بتایا کہ تب میں نے ٹیپ بال چھوڑ دی ،انہوں نے کہا کہ تم 4،5 مہینے لگا کر تو دیکھو، ایک ایسا ٹائم تھا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے پیدل ہی پھرتا ہوتا تھا ،میں فیصل آباد کے کلب کیخلاف میچ کھیل رہا تھا ، اس وقت سیزن کے ٹاپ 7 پلیئرز تھے ۔

آصف علی اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے کہاکہ میں فیکٹری میں کوالٹی انسپکٹر تھا ، کسی وقت مجھے کام ہاتھ سے بھی کرنا پڑتا تھا ، کچھ چیزوں کو ہاتھ سے بھی چیک کرنا پڑتا تھا ، لوہے کا کام تھا تو میرے ناخنوں میں گریس پھنسی ہوئی تھی ،میں میچ پر چلا گیا ۔

سلمان بٹ کے ساتھ اوپنرز آیا، وہ 9پر تھے میں نے سنچری کرلی

چھکوں والے آصف علی کہتے ہیں ہماری مخالف ٹیم نے20 اوورز میں 132 سکور کیا تھا ،میں اور سلمان بھائی اوپنرز تھے ، 132 میں سے سلمان کا صرف 9 سکور تھا ، ، ہم نے 10 اوورز میں میچ پورا کر دیا تھا ، سلمان اور اعجاز بھائی کے الفاظ تھے کہ کرکٹ تو تم کھیلتے ہو ہمیں تو کھیلنی ہی نہیں آتی ۔

آصف علی کا کہنا ہے میں نے انھیں بتایا کہ میں تو کام سے آیاہوں ، میرے تو ہاتھ بھی گندے ہیں ، وہ کہنے لگے کہ کرکٹ تو کھیلتا ہے ہم تو بس ایسے ہی، مجھے شرم آ رہی ہے دوسرے اینڈ پر کھڑے،، تم تو دلیری سے کرکٹ کھیلتے ہو۔

آصف علی نے کہا کہ مجھے یقین کریں مجھے یہ بھی نہیں پتا تھا دلیری کس کو کہہ رہے تھے ؟ جب فیصل آباد سپر 8 تھا، اعجاز بھائی انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد فیصل آباد کے کوچ بنے تو مصباح الحق کو بولے کہ اس لڑکے کو میچ کھلا دیں، ،سپنر مجھے زیادہ اچھا نہیں کھیلنا آتا تھا۔

انھوں نے بتایا یہ پرانی بات ہے اب میں اسپنرز کو بھی کھیل لیتا ہوں پاکستان کپ میں سب نے دیکھ لیا ہے ،مصباح الحق نے کہادوسری ٹیم پہلا اوورز اسپنرز کو دے دے تو پھر؟اعجاز بھائی نے کہا ناکام ہوا تو واپس بھیج دینا۔

http://

آصف علی کے بقول سفارش پر آگے آنے پر میں نے ڈیبیو میچ میں 100 کرلیا ، تو اسوقت کے بعد مصباح بھائی مجھے ساتھ لے کر چل رہے ہیں ،اللہ کی رحمت ہے اور ان کا بہت شکریہ بھی ہے یہ انٹرویو آصف علی کے حالیہ چھکوں سے پہلے کاہے۔

Comments are closed.