عروج اورنگزیب ، پرجوش اشعار نے شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا


فوٹو،ویڈیو: بی بی سی، اردو نیوز ٹوئٹر،انٹرنیٹ

اسلام آباد(زمینی حقائق ڈاٹ کام) ایک لڑکی شاعری نعروں کے انداز میں پڑھنے اور سوشل میڈ یا پر ویڈ یو وائرل ہونے پر راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئی،ملکی اور غیر ملکی میڈیا عروج اورنگزیب کی تلاش شروع کردی۔

لاہور کے فیض فیسٹیول میں میں عروج اورنگزیب نے پرجوش انداز میں اتنی انفرادیت تھی کہ جو ہر دیکھنے والے کو بھا گئی،ہر ایک کو یہ تجسس ہو گیا کہ وہ عروج اورنگزیب کے بارے میں جان سکے کہ یہ لڑکی کون ہے کہاں سے آئی ہے؟

برطانوی نشریاتی ادارے نے اس پر خصوصی رپورٹ تیار کی جس میں اس سے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے انداز پر تنقیدکو بھی شامل کیا گیا ، سوشل میڈیا کے صارفین کا خیال تھا کہ یہ کسی امیر گھرانے کی لڑکی ہے جو لیدر جیکٹ میں اکٹنگ کررہی ہے۔

عروج اورنگزیب نے سٹوڈنٹس کے اس اجتماع میں ڈھول کی تھاپ پر جو اشعارپڑھے وہ ایک ہندوستانی شاعر بسمل عظیم آبادی تھے،

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے۔
آج پھر مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے بار بار
آئیں وہ شوق شہادت جن کے جن کے دل میں ہے

عروج اورنگزیب کے بعد سٹوڈنٹس نے اشاروں سے جب ایک دوسرے کو نعرہ بازی کی باری دی اس سے واضح ہو رہا تھا کہ یہ کوئی اچانک کا واقعہ نہیں ہے بلکہ طلبہ و طالبات اس کے لئے تیاری کرکے آئے تھے۔

رپورٹ کے مطابق عروج اورنگزیب پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد پروگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹو، فیمینسٹ کلیکٹو اور حقوقِ خلق تحریک کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ وہ پنجابی تھیٹر میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’میں ایک عام متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے گھرانے سے ہوں،عروج نے بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھی 29 نومبر کو ہونے والے سٹوڈنٹس مارچ میں طالب علموں کو دعوت دینے کے لیے فیض فیسٹیول میں نعرے بازی کر رہے تھے۔

’ہمارا اس میں کوئی اور مقصد نہیں ہے۔ لوگوں کو اتنا ابہام ہے کہ پتا نہیں کیا مقصد ہے یا این جی او نے پیسے دیے ہوئے ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ’ہم صرف عام سے انسان ہیں جو اپنی زندگیوں سے تنگ ہیں، خود کشیاں نہیں کرنا چاہتے بس نظام کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔‘

عروج کہتی ہیں ’ہم غیر طبقاتی معاشرے اور غیر طبقاتی تعلیمی نظام کا قیام چاہتے ہیں۔ سب کے لیے تعلیم ایک جیسی ہوگی تو ہی ہم ایک جیسے بن سکتے ہیں۔ ہم کوئی غلط بات تو نہیں کر رہے ۔

عروج اورنگزیب کو اردو نیوز نے بھی تلاش کرلیا اور اس پر ان کے خیالات معلوم کئے تو پتہ چلا کہ طلبہ اور طالبات کا ایک گروپ ہے جو29نومبر کو طلبہ کے حقوق کیلئے مارچ کی تیاریوں میں ہے۔

عروج سے سوال کیاگیا کہ فیض فیسٹیول میں ان کا گروپ کیا کر رہا تھا اور اس ویڈیو کلپ کے وائرل ہونے کے بعد لوگوں کے ردعمل کو وہ کیسے دیکھتی ہیں؟ عروج نے بتایا’میرے پاس اتنا وقت اور قوت ہرگز بھی نہیں ہے کہ لوگوں کی ایسی باتوں پر توجہ بھی دوں جو سرے سے کوئی معنی ہی نہیں رکھتیں۔

وہ کہتی ہیں ایک بات میں ضرور کروں گی کہ میں پنجاب یونیورسٹی سے پڑھی ہوں، کیا لمز سے ہٹ کے دیگر اداروں سے پڑھنے والوں کے سینگ ہونے چاہئیں جس سے ان کی شناخت ہو؟‘

انہوں نے بتایا کہ ’ان کی تنظیم کے لوگوں نے فیض فیسٹیول کو ایک ترقی پسند سوچ کے پلیٹ فارم کے طور پر دیکھا اور طلبہ کے حقوق کے لیے ہونے والے مارچ کے لیے پمفلٹس تقسیم کیے، ایک سٹڈی سرکل کیا اور نوجوانوں کو مارچ میں شرکت کی دعوت دی۔‘

عروج اورنگزیب نے بتایاکہ ’افسوس تو اس بات کا ہے کہ میرے پاس گرم کپڑے کے طور پر صرف یہ ایک جیکٹ ہی ہے، میں اتنا معمولی فون استعمال کرتی ہوں جس میں تین سے چار ایپلی کیشنز کھلنے پر ہینگ ہو جاتا ہے۔

ہمارے پاس طلبہ کو منظم کرنے کے لیے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں اور وسائل نہ ہونے کے باوجود ہمارے ارادے مضبوط ہیں اور ہم اپنی سیاسی جگہ کو حاصل کرنا چاہتے ہیں جو ہماری نوجوانوں کی تھی اور چھین لی گئی۔ ہم فیصلہ سازی میں اپنا حصہ لینے کے لیے جدوجہد کرتے رہیں گے۔

عروج اورنگزیب کے مطابق فیض فیسٹیول میں پڑھی گئی بسمل عظیم آبادی کی نظم ان مسائل کو ہی اجاگر کرنے کے لیے تھی،ہمارے اہداف میں
جامعات میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت، تعلیمی اداروں کی نجکاری کو روکنا اور فیسوں میں اضافے کی واپسی جیسے اقدامات شامل ہیں۔

Comments are closed.