پی ڈی ایم کی خدمت میں ایک عملی تجویز

محمود شام

دنیا بھر کی آزادی کی تحریکوں کی سرتوڑ کوشش یہ ہوتی تھی کہ پہلے کہیں ایک علاقہ آزاد کروالیا جائے اور وہاں اپنے منشور اور اصولوں کے مطابق حکمرانی کی جائے۔ لوگوں کو زندگی کی آسانیاں دی جائیں۔ اسے ایک مثالی علاقہ بناکر پھر اگلے شہروں قصبوں میں پیش قدمی کی جائے تاکہ عوام میں تحریک کے پروگرام پر اعتبار قائم ہو۔ اور وہ بھی آزادی کے اس مارچ میں شامل ہوتے جائیں۔مائوزے تنگ کے لانگ مارچ میں قدم قدم یہ روایت دکھائی دیتی ہے۔ ایشیا افریقہ جہاں جہاں قوموں نے سامراج یا جابر حکمرانوں سے نجات حاصل کی وہاں یہی حکمت عملی اختیار کی گئی۔

پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ والوں نے اگر چہ یہ اعلان ابھی نہیں کیا ہے کہ وہ مجموعی طور پر پاکستان کو کس قسم کا ملک بنانا چاہتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر ایسی جماعتیں شامل ہیں جو اس ملک پر حکمرانی کرچکی ہیں، ان کے مختلف ادوار ِحکومت سے یہ اندازہ ہوسکتا ہے کہ وہ کس قسم کا انصاف دیتی رہی ہیں۔ قانون کے نفاذ کے کیا طریقے تھے۔ صحت کا نظام کیسا تھا۔ ٹرانسپورٹ کی سہولتیں کیسی تھیں۔

میں نے پہلے بھی یہ تجویز پیش کی تھی۔ اب ذرا تفصیل سے صدق دل سے ،خلوص ِنیت سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پی ڈی ایم کے معزز رہنما حکمرانی کی صلاحیتوں۔ سماجی تدبر۔ قومی تعمیر کے فلسفے۔ تعصبات کے خاتمے کے لیے عملی مظاہرہ ملک کے دوسرے بڑے صوبے سندھ میں کرسکتے ہیں۔جہاں پی ڈی ایم کی ایک بڑی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ اسمبلی میں اسے بھاری اکثریت حاصل ہے۔

سیاسی طور پر کوئی بڑا چیلنج نہیں ہے۔ بیورو کریسی اس کی اپنی ہے۔ مسلسل تیسری بار وہ مسند اقتدار پر ہے۔ ملک کا سب سے بڑا تجارتی ۔ صنعتی۔ تعلیمی مرکز۔ کراچی اس کا دارُالحکومت ہے۔ پاکستان کو سب سے زیادہ آمدنی اسی صوبے سے ہوتی ہے۔ پھر کراچی میں سندھی۔ بلوچ۔ مہاجر۔ پنجابی۔ گلگت بلتستان والے۔ پٹھان کے پی والے بھی اور بلوچستان والے بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ اس شہر کو اس لیے منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ سندھ کی اپنی پانچ ہزار سالہ تہذ یب ہے۔ ہزاروں سال پہلے بھی یہاں موہنجو دڑو میں انسان بہت شائستگی اور سلیقے سے رہتے تھے۔پھر سندھ باب الاسلام بھی کہلاتا ہے۔

یہ صوبہ ہر حوالے سے گیارہ سیاسی جماعتوں کی قائدانہ صلاحیتوں کے عملی مظاہرے کی تجربہ گاہیں بن سکتا ہے۔ ان سب قائدین کا اس وقت یہ موقف ہے کہ عمران خان ملک کو تباہ کررہا ہے۔ اس کا ایک دن بھی حکومت میں رہنا پاکستان کے لیے خطرناک ہے۔ یعنی پی ڈی ایم عمران خان کی جگہ پاکستان کو اچھی طرح چلاسکتی ہے۔ عوام کی زندگی کو آسانیاں فراہم کرسکتی ہے۔ اس کے لیڈروں کے ذہن میں اچھی حکمرانی کے منصوبے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے جس طرح کراچی میں جلسے کی میزبانی کی۔ اس طرح وہ سندھ کی حکمرانی کو مثالی بنانے کے لیے ان تمام جماعتوں کے لیڈروں کو سندھ میں آکر اپنی خداداد ذہانت اور تجربات کی بنا پر مشاورت اور عملی تعاون کی دعوت دے ۔ پہلا مرحلہ میرے خیال میں یہ ہو کہ پی ڈی ایم کی پہلی اور دوسری صف کی پوری قیادت گڑھی خدا بخش بھٹو میں حاضری دے۔ یہاں وہ لوگ ابدی نیند سورہے ہیں جو زندگی بھر لوگوں کو جگاتے رہے ۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو، شہید بے نظیر بھٹو، شہید مرتضیٰ بھٹو، شاہنوار بھٹو۔ ان کی قبروں پر فاتحہ پڑھیں ۔ انہیں خراج عقیدت پیش کریں۔

پھر وہ سندھ کی شاہراہوں،گلی کوچوں پر سفر کریں۔ ایک روز لاڑکانہ میں قیام کریں۔ اس شہر نے پاکستان کو صدر، وزیر اعظم پیش کیے۔ گورنر۔وزرائے اعلیٰ وفاقی وزراء دیے۔ خون کا نذرانہ دیا۔ 1970 سے لے کر اب تک پی پی پی نے کئی بار حکومت کی۔ دیکھیں کیا لاڑکانہ میں وہ شہری سہولتیں ہیں جو اس کے شہریوں کا حق بنتی ہیں۔ وہاں سے سڑک کے ذریعے ہی کراچی تک سفر کریں۔ سکھر۔ دادو۔ جیکب آباد۔ نواب شاہ۔ ٹھٹھہ۔ نوشہرو فیروز۔ سیہون شریف۔ حیدر آباد۔ میرپور خاص۔ ہالا۔ ہر شہر کے باسی پی ڈی ایم کے قائدین کو ’بھلی کر آیا‘ کہہ کر خیر مقدم کریں گے۔

دیدہ و دل فرش راہ کریں گے۔ یہاں کے دانشوروں، شاعروں، صحافیوں،سیاسی کارکنوں، علماء، دینی مدارس کے طالب علموں نے جمہوریت کی بحالی کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) پورے پاکستان میں شروع ہوئی۔ سب جگہ دم توڑ گئی تھی۔ سندھ کے شہروں بالخصوص ہالا میں آخر تک کارکن رضاکارانہ گرفتاریاں دیتے رہے۔

پی ڈی ایم قائدین جب پورے سندھ کو قریب سے دیکھتے ہوئے ہاریوں کے کھردرے چہروں، سپاٹ آنکھوں پر نظر ڈالتے ہوئے کراچی پہنچیں تو ان مشاہدات کی روشنی میں سندھ حکومت کی مدد کریں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) موٹر وے کی مہارت رکھتی ہے۔ مریم نواز صاحبہ، احسن اقبال سندھ کی سڑکوں کے لیے مشورے دیں۔ علم و فضل کی ہدایت کے لیے مولانا فضل الرحمٰن سے رہنمائی حاصل کی جائے۔

قبائل میں دشمنی اور عداوت کے خاتمے اور سندھ میں آباد بلوچوں کی مدد کے لیے اختر مینگل سے مشاورت کی جائے۔ شہروں کی حالت سنوارنے کے لیے شہباز شریف کے کارناموں سے سبق لیا جائے۔معیشت کی بحالی کے لیے زبیر عمر، مفتاح اسماعیل اور شاہد خاقان عباسی کے تجربات سے استفادہ کیا جائے۔ سندھ میں درپیش زرعی مسائل کے حل کے لیے خرم دستگیر اور طلال چوہدری کچھ تراکیب بتاسکتے ہیں۔ سندھ میں آباد پختونوں کی مشکلات دور کرنے کے لیے اسفند یار ولی اور محمود خان اچکزئی عملی تجاویز دے سکتے ہیں۔بانیان پاکستان کی اولادوں کی پریشانیاں دور کرنے کے لیے پی ایم ایل(ن) کے مہاجر سینیٹروں سے مدد حاصل ہوسکتی ہے.

انتخابات میں دو اڑھائی سال باقی ہیں۔ یہ عرصہ سندھ کو مثالی صوبہ بنانے میں نتیجہ خیز رہ سکتا ہے ۔ پھر پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی 2022 میں آرہی ہے۔ سندھ میں بے مثال ترقی کا جشن پی ڈی ایم کی قیادت میں منایا جاسکتا ہے۔ ملک بھر میں جلسوں میں پی ڈی ایم تھیوری( فلسفہ) پیش کرتی رہے اور اس کا پریکٹیکل( عملی مظاہرہ) سندھ میں ہوتا رہے۔ آپ بتائیں میری عرضداشت مثبت ہے یا نہیں۔
(بشکریہ روزنامہ جنگ)

Comments are closed.