وزیراعظم اور کِٹی پارٹیز

شمشاد مانگٹ

وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں اگرچہ عوام کی بدحالی میں اضافہ ہوا ہے لیکن اہم بات یہ بھی ہے کہ وزیراعظم آفس میں آنے والے تمام مہمانوں بشمول وفاقی وزراء کو بھی پوری خوراک نہیں مل پا رہی اسی وجہ سے کئی ایک وزیروں کی ”حالت غیر”ہوتے دیکھی گئی اور شائداسی وجہ سے کچھ وزیروں نے حکومت کے خلاف ”غیروں” جیسے بیانات بھی دیئے۔

عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ وزیراعظم آفس میں وفاقی کابینہ کا اجلاس ہو یا مشیروں اور وزیروں کے ساتھ صلاح مشورے کی بیٹھک ہو انہیں خاطر تواضع میں چائے کا ایک کپ اور دو  بسکٹ ہی مل پاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ایک خاتون وزیر کی شوگر نے پاکستانی سٹاک ایکسچینج کی طرح بیٹھنا شروع کیا تو وہ گھبرائی ہوئی باہر نکلیں اور کچھ کھانے کو مانگا ۔

ڈیوٹی پرموجود اہلکاروں نے انہیں کنٹین کی راہ دکھائی جہاں پرابھی انہوں نے کھانے کی لسٹ دیکھنا ہی شروع کی تھی کہ ان کا ڈرائیور گھر سے بنا ہوا کھانا لے کر نمودار ہواجس سے تین وزراء مستفید ہوئے اور ان کا شوگر لیول قدرے مستحکم ہوا۔اب ہر وزیر، مشیر اور بیورو کریٹ یہ جانتا ہے کہ وزیر اعظم سے ملاقات کے لئے جاتے ہوئے اپنے ڈرائیور یا خانسامے کے نام ”وصیت نامہ” چھوڑنا ضروری ہے کہ اگر میٹنگ میں تاخیر ہو جائے تو کھانے کا ڈبہ لے کر وزیراعظم افس تک ہنگامی رسائی حاصل کی جائے۔

وفاقی کابینہ اجلاس میں شرکت کے لئے آنے والے زیادہ تر وزراء کے ڈرائیور اور خانسامے کھانے کے ”ٹیفن” لئے وزیراعظم آفس کے استقبالیہ سے اندر جاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور جو وزراء اور مشیر اپنے ڈرائیوروں کو ہنگامی کھانے کی فراہمی کا پیغام دینا بھول جاتے ہیں وہ وہاں پرموجود کنٹین سے اپنی جیب سے کھانا تناول فرماتے ہیں ۔وہ دن دور نہیں ہے جب وزیراعظم آفس میں مطلوبہ خوراک نہ ملنے پر وزراء اورمشیروں پر غشی طاری ہو گی اور ایمبولنسیز آکسیجن کی بجائے خوراک کے ڈبے لے کر سائرن بجاتی وزیراعظم آفس کی طرف دوڑ رہی ہوں گی ۔

کھانے کے معاملے میں وزیراعظم کی ”بے رحمی” کا عالم یہ ہے کہ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں جن معاونین خاص اور مشیروں کو دفاتر دیئے گئے ہیں ان دفاتر میں چائے، کافی ، بسکٹ اور دیگر کھانے ، پینے کی اشیاء کے پیسے وہ اپنی جیب سے اداکرتے ہیں۔ ندیم افضل چن وہ حکومتی ترجمان ہیں جن کا کھاتہ سب سے کھلا اور بڑا ہے وزیراعظم سیکرٹریٹ میں قائم اپنے دفاتر کے چائے  بسکٹ اور کافی کا بل ندیم افضل چن ہر ماہ 50 ہزار روپے سے زائد ادا کرتے ہیں۔

گزشتہ دنوں حکومتی ترجمان نعیم الحق کا بل 63 ہزار روپے آیا تو انہوں نے سر پکڑ لیا اور کنٹین کے سربراہ کو بلاکر انہوں نے از خود تفتیش کی تو معلوم ہوا ہے کہ جو بھی مہمان آیا اسے زیادہ ترکافی ہی پیش کی جاتی ہے چنانچہ نعیم الحق نے اپنے سرکاری آفس کے لئے یک نکاتی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کنٹین والوں کو بتا دیا ہے کہ میرا مہمان جو بھی ہو اسے گرین ٹی اور دو  بسکٹ والے فارمولے پر بھگتا یا جائے چنانچہ بتایا جا رہا ہے کہ اس فارمولے سے نعیم الحق کی معاشی حالت میں بہتری آنا شروع ہو گئی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی دیکھا دیکھی کئی وزراء نے اپنے دفاتر میں بھی چائے کی پیالی اور دو  بسکٹ والا فارمولا نا فذ کر دیا ہے اور دفاتر میں بھی ان کے گھروں سے کھانا آ نے لگا ہے۔ مگر وزیراعظم کی اس ”کھانا کُش”پالیسی کے باوجود عوام کی حالت دن بدن پتلی ہوتی جا رہی ہے۔ایک طرف وزیراعظم اور وزراء کو بچت کا جنون ہے جبکہ دوسری طرف اسلام آباد میں ایک ایسی ”مخلوق” بھی موجود ہے جو آٹے، دال کے اس بحران میں بھی ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے لئے ”کِٹی پارٹیز” کا انعقاد کر رہی ہے۔

وفاقی دارالحکومت میں بڑے بڑے بیورو کریٹس موجود ہیں جن کی قلم کی نوک پر حکومتوں کی کارکردگی کاتعین ہوتا ہے۔ انہی بیورو کریٹس کی مستند بیگمات اور ”آف شور بیگمات” شہر کے فائیو سٹار ہوٹلوں اور نجی گھروں پر کِٹی پارٹیز کا انعقاد کر کے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ایسی پارٹیوں کا مقصد بڑے گریڈوں والوں کی انتہائی موثر بیگمات کا محض ٹائم پاس اور احساس برتری قائم کرنا ہو تا ہے۔

وزیراعظم کی کوشش ہے کہ وفاقی کابینہ اور مشیروں ، ترجمانوں کا کھانا بند کر کے ملکی معیشت کو سنبھالا دیا جائے جبکہ کِٹی پارٹیز کو ایسی کسی سوچ سے کوئی سرو کار نہیں ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم کو نیا پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے کتنی مشکلات درپیش ہیں۔ ویسے بھی وزیراعظم اپنے جس وعدے پر عمل کروا سکے ہیں وہ مہمانوں کو چائے اور  بسکٹ کی فخریہ پیشکش ہے جبکہ باقی ملک میں ہر قسم کا مافیا ہر قسم کے کام کے لئے آزاد ہے۔

دیہاتوں میں خواتین مل کر گڑ والے چاول بنا کر دس  بیبیوں کی کہانی پڑھا کرتی تھیں اور جو منت مانی جاتی تھی اس کے لئے دعا ہو اکرتی تھی ۔اسلام آباد میں ماڈرن خواتین کِٹی پارٹیز کر کے اپنے ”بے اثر” شوہروں کے اثرورسوخ کے قصے بیان کرتی ہیں اور اپنے قانونی اور غیرقانونی اثاثوں کا دبنگ انداز میں ذکر بھی کر لیتی ہیں۔وزیراعظم پوری کابینہ کو چائے کا کپ اور دو بسکٹ کھلانے کی بجائے گڑ والے چاول ہی بنا لیا کریں ۔کم از کم وزراء کی شوگر تو ڈاؤن نہ ہو ۔

Comments are closed.