خواتین حقوق کے مرد ترجمان


محبوب الرحمان تنولی

خواتین کے حقوق کا تعین اس دن ہو گیا تھا جب حضرت محمدﷺ نے عرب معاشرے میں بچیوں کو زندہ درگور کرنے کی قبیح رسم روک کر عورت کی عظمت اور برابری کے اصول طے کردیئے تھے۔ اللہ پاک نے عورت کے مرتبہ کااظہار ایسے کیا کہ روز محشر مخلوق اپنی والدہ کے نام سے پہچانی جائے گی۔۔اسلامی تعلیمات کا مطالعہ اور ان کی پیروی کرنے والوں کو عورت کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے نہیں بلکہ اس روڈ میپ پر چلنے کی ضرورت ہے ۔۔ ایسا کرنے والوں کو خواہ وہ مرد ہوں یاخواتین کسی سے حقوق مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔

خواتین کے حقوق کے نام پر دن منانے۔ تنظیمیں بنانے اور معاشی کارو بار کے نت نئے طریقے ڈھونڈنے سے کبھی حقوق نہیں ملتے۔ چند روشن خیال اور اسلامی تعلیمات کی حدود میں گھٹن محسوس کرنے والی خواتین اور مردوں نے مل کر حقوق کے نام پر ادھم مچا رکھاہے۔ ان کی جدو جہد کے نتائج کیا ہیں؟ زیرو+ زیرو= زیرو۔۔کسی کے پاس خواتین کے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے سوائے اسلا م میں مقرر کردہ ضابطہ حیات کے۔۔ اسلام نے خواتین کی شادی، وراثت ، روزگار ، معاشرت ، ازدواجی حدود سمیت ہر اس پہلو کا احاطہ کیا اور اس کے اصول وضح کئے جو خواتین کو درپیش آسکتے ہیں۔

مجھے ذاتی حثیت میں خواتین کی حقوق کے دعویداروں سے چڑھ ہے۔۔میں ایسے متعدد روشن خیالوں کو جانتا ہوں جو عورت کی آزادی ۔ عورت کے اظہار رائے، برابری پر میڈیا، سوشل میڈیا ، سیمینارزمیں مدلل تقاریر کرتے اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کے دعویدار ہیں۔ عورتوں کی آزادی کیلئے پیش پیش رہتے ہیں لیکن خود ان کی اپنی خواتین ۔۔ بہنیں ، بیٹیاں اور بیویاں گھروں میں بند رہتی ہیں۔۔ وہ کسی سے انھیں ملنے نہیں دیتے۔۔ سماجی فنگشنز میں شرکت کی انھیں اجازت نہیں ہوتی ۔۔خود دوسروں کی جوان بیٹوں کی آزادی کی تحریکیں چلاتے ہیں اوراپنی بیٹیوں اور بہنوں کو پردے اوربرے معاشرے سے بچنے کے درس دیتے ہیں۔

خواتین کے حقوق کے نام پر منافقت ہورہی ہے۔۔ایک بیورو کریٹ سے سوشل میڈیا پر مباحثہ طرز کے آرگو مینٹس ہوئے ۔ میں مخلوط تعلیم کی مخالفت کررہا تھا ۔ وہ حمایت کررہے تھے۔میں لڑکی لڑکے کی دوستی کو خلاف شرح قرار دیتا تھا وہ بوسیدہ سوچ سے مجھے نکلنے کا مشورہ دیتے تھے۔۔ان کا خیال تھا شادی سے پہلے لڑکی لڑکے کو ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملنا چایئے تاکہ وہ مستقبل کا فیصلہ کرسکیں۔پڑھی لکھی بچیوں کو ملازمت کا ہر چانس اویل کرنا چایئے۔۔ سرڈھانپنا، کونے کھدرے میں دبک کر بیٹھنا۔ مردوں سے دور بھاگنا یہ پرانے باتیں ہیں۔۔ آج کل کامیابی کیلئے عورت کو باہر نکلنا ضروری ہو گیاہے۔

چار دن بعد مجھے وہ شخص اپنی بڑی گاڑی میں شہر سے واپس آبائی علاقے جاتے ہوئے دکھائی دیا۔ اس کی بیٹی اور بیوی نے گاڑی کے اندر بھی برقعے میں تھیں۔ ۔ چارٹ کھانے کیلئے باہر آنے کی انھیں اجازت نہیں تھی۔۔ اس کے ٹبر نے گاڑی کے اندر بیٹھ کر چنا چاٹ کھایا۔ وہیں ۔ چائے منگوائی اور پی کر چلے گئے۔۔ میں نے قریب کھڑے اس کے ایک قریبی آدمی سے پوچھا کہ انھیں کیا ہوا؟ خواتین کو گاڑی سے بھی نکلنے نہیں دیا۔۔ مجھے جواب ملا۔ یہ تو پردہ کرتے ہیں۔ اس کی بیٹی کو توگاوں والوں نے بھی کبھی نہیں دیکھا۔

مجھے پردے پر بالکل کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بحثیت مسلمان ہمیں ہر ایک کو پردے کی تعظیم کرنی چایئے۔۔مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ شخص دوسروں کی عورتوں کیلئے کتنا روشن خیال ہے اور جب اپنی عورتوں کی بات ہے ۔تو یہ دہرہ معیار؟ یہ جو خواتین کے حقوق کی دکانیں لگائے بیٹھے ہیں ۔۔ ان کی آوازیں بھی ٹاگٹڈ اٹھتی ہیں۔۔ ان کے اہداف بھی مفادات پر مبنی ہوتے ہیں۔۔ مثلاً کسی بچی کے ساتھ زیادتی ہو جائے اور و ہ غریب یا بے سہارا ہو تو یہ اس کا معاملا میڈیا میں اچھالیں گے۔ عدالتوں تک بھی لے جائیں گے۔۔لیکن چند ہی ماہ بعد آپ اسی بچی کی حالت دیکھیں گے وہ تنہاکھڑی ہوگی۔۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا اور وہ اسے اس مقام پر چھوڑ جائیں گے جہاں معاشرہ بھی اس سے نفرت کرنے لگے گا۔

خواتین کے حقوق کے دعویدار خواتین و حضرات کی اکثریت ان لوگو ں کی ہے جو خود معاشی طور پر آسودہ ہیں۔۔ مذہب سے دلچسبی نہ ہونے کے برابر ہوگی۔دلیل وہ انسانی حقوق اور عالمی اداروں کے چارٹرز کی دے رہے ہوں گے۔۔ مثالیں وہ یورپ اور امیر ملکوں کی دے رہے ہوں گے لیکن اپنے گھروں میں پڑھے قرآن پاک سے کوئی دلیل سنیں گے تو آپ کو انتہا پسند اور چھوٹی سوچ والا کہہ کرمسترد کردیں گے۔
اس تحریر سے مراد یہ ہر گز نہیں ہے کہ خواتین کے حقوق کیلئے بولا نہ جائے۔ لیکن نیک نیتی کے ساتھ۔۔معاشرے اور مذہب کی اقدار کو ملحوظ خاطر رکھ کر بے لوث جذبہ کے ساتھ بھی یہ کام ہو سکتا ہے۔

ملک کے طول و عرض میں اچھی بری سوچ رکھنے والے موجود ہوتے ہیں۔۔ بدقستمی سے مدارس میں معلم اور مفتی حضرات کے شاگردوں کے ساتھ بد فعلی کے واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔۔ اور یونیورسٹیز کے اساتذہ کے اپنی طالبات کے ساتھ سکینڈلز بھی۔۔ اگر ان واقعات کاموازنہ کیا جائے تو شاید مدارس کا گند تین فیصد اور مخلوط تعلیم کے واقعات چالیس فیصد نکلیں گے۔۔ کسی کو اختلاف رائے ہو تو ابھی گوگل پر یونیورسٹیز اور مدارس کے واقعات کی سرچنگ کرکے دیکھ لے۔۔ مدارس کے شاید کچھ شہروں تک ملیں گے لیکن مخلوط تعلیم کے ہر شہر سے ملیں گے۔۔جس طرح کرپشن میں زیادہ تر پڑھا لکھاطبقہ ملوث ملتا ہے اسی طرح ایسے واقعات میں بھی ایسے ہی نتائج ہیں۔

خواتین مارچ تو خواتین کے مسائل کا حل نہیں ہے۔ بلکہ ان کے بہودہ نعرے او رافکار دیکھ کر ہی اسلام آباد میں جماعت اسلامی کی خواتین نے جوابی مارچ کیا تھا۔۔ حقو ق کے نام پر ملک بھر سے آئی خواتین کی تعداد سیکڑوں میں اور باپردہ خواتین کی تعداد ہزاروں میں تھی جو کہ ان کے خیالات کی نفی کرنے کیلئے نکلیں تھیں۔۔ یہ فیصلہ معاشرے یا ایک گروہ کے ہاتھ میں دینے کی بجائے ہر خاندان اپنے گھر میں خواتین کے حقوق کا بہتر تعین کر سکتاہے۔ تعلیم ، تربیت،وراثت، روزگار اور شریک حیات چننے میں انھیں فیصلے کا حق دینا بھی شامل ہے۔بے شک کسی بچی پر شادی کے معاملے پر بھی زور زبردستی جائز نہیں ہے۔ ہمارے ہاں قوانین بھی موجود ہیں خواتین کے حقوق کیلئے گلے پھارنے کی بجائے بہتر ہے ان کے حقوق کے تحفظ کے قوانین پر عمل کی راہ تلاش کی جائے۔

خواتین کی آزادی پر دلائل، برابری کیلئے اکسانہ، ملازمت پیشہ خواتین کو عزت دینے کی بجائے ان کے فیشن اورحلیہ کی جھوٹی تعریفیں۔۔ حوصلہ افزائی کے نام پر قریب ہونے کے بہانے۔معاشرتی و اسلامی اقدار کی حوصلہ شکنی ۔ اپنے کام سے کام رکھنے والی خواتین کے راستے میں روڑے اٹکانا۔۔گھل مل جانے والے فی میل سٹاف کی ترقی ، غیر معمولی حوصلہ افزائی ۔ ۔پتہ نہیں کتنے روپ ہیں۔ ایکسپلائٹ کرنے والوں کے۔۔ لیکن اس سارے عمل کے باوجود اسی معاشرے میں وہ خواتین بھی موجود ہیں۔۔ جو اپنے دائرہ کار تک محدود ہیں ۔ اسلام کی وضح کردہ حدود کا پاس رکھتے ہوئے ۔ خواتین کی جھوٹی آزادی اور جھوٹی تعریفوں کی پرواہ نہیں کرتیں۔

خواتین کو کسی سے حقوق مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔وہ زمانہ اب نہیں رہا کہ جب لڑکیوں کی مرضی کی بغیر ان کی شادیاں کردی جاتی تھیں۔ان کی مرضی نہیں پوچھی جاتی تھی۔ ہا ں مگر وراثت ۔ جنسی تفریق ۔ طلاق کے معاملات سمیت کئی مسائل حل طلب ہیں۔ جو حکومت اور حکومتی ادارے بھی حل کرسکتے ہیں۔۔ جن پر قانون سازی کی بھی ضرورت ہے۔ کچھ خواتین کو خود بھی فعال ہونے کی ضرورت ہے ۔ مگر خواتین احتجاج ۔ سیمینار۔ ریلیاں نکال کر یہ حقوق حاصل نہیں ہوسکتے۔۔یوم خواتین کی تاریخ کسی کو یاد ہو تو یہ آواز امریکہ سے اٹھی تھی ان کے سیکولر معاشرے میں خواتین سے امتیازی سلوک پر احتجاج اور یہ دن منانے کی ضرورت پیش آئی ۔ اگر آزادی ہی حقوق کی منزل ہو تو پھر امریکہ میں خواتین کی آزادی پر تو کوئی قدغن نہیں ہے۔بس خواتین کو بھی اور مرد حضرات کو بھی خواتین کا مقام سمجھنے کی ضرورت ہے۔

Comments are closed.