حضرت امیر عبدالقدیر اعوان کی جدوجہد

شمشاد مانگٹ

رواں ماہ میلاد کی محفلیں مسلسل منعقد ہورہی ہیں اور کہیں مقررین اور کہیں نعت خوان حضرات حضور نبی کریم کی شان بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔تنظیم الاخوان کے سربراہ حضر ت امیر عبدالقدیر اعوان تو اس حوالے سے پورا سال ہی مصروف رہتے ہیں اور ان کی تقریروں اور واعظ کا اصل مقصد امت کوفرقہ واریت سے بچاکر اللہ اور اس کے رسول کے راستے پر لانا ہے ۔

گزشتہ روز ان سے اسلام آباد میں مسلسل دوسری ملاقات ہوئی اور حضور نبی کریم کی شان اور اسلام کے روحانی پہلووﺅں پر انہوں نے سیرحاصل گفتگو کی ۔

حضرت امیرعبدالقدیر اعوان اپنے والد مولانا اکرم اعوان کی جدوجہد کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔حضرت امیرعبدالقدیر اعوان تصوف کے اصولوں کو بخوبی بیان کرتے ہیں اور ان کے چاہنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے جس میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جو شیطانی دماغ حضور کی شان میں گستاخی کے منصوبے بناتے ہیں درحقیقت وہ امت کی غیرت کا اندازہ لگاتے ہیں تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ غیرت ایمانی کس قدر باقی ہے ؟

یہ ہماری اندر کی کمزوریاں ہیں کہ ملعون حضورکریم کی شان میں بار بار گستاخی کرتے ہیں ۔اس وقت ہمیں یعنی پوری دنیا کے مسلم حکمرانوں میں وہ غیرت ایمانی درکار ہے جو ان ملعونوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکیں۔

اگرچہ عاشقان رسول ان شیطانوں کوبھرپور جواب بھی دے رہے ہیں لیکن ہمیں اپنی کمزوریاں دور کرنا ہوں گی ، مجموعی طورپر اس وقت مسلمان عدم تحفظ کا شکار ہیں اور مسلم حکمرانوں کو اپنی اپنی عوام کو اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق اعتماد اور انصاف فراہم کرنا ہوگا۔

دنیا کے ہر معاشرے میں عدل کی فراہمی بنیادی ضرورت ہے مگر اس بات کو ماننا اور اس کو نافذ کرنا دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔پاکستان ہمارا گھر ہے ہمیں اس گھر میں عدل کو ماننا بھی ہو گا اور نافذ بھی کرنا ہوگا تاکہ ہم دنیا کے ایک بہترین معاشرے کے طورپر سامنے آسکیں۔

پاکستان سے مختلف ممالک اور معاشروں کے لوگ وابستہ ہیں ، عدل کا مساوات کے ساتھ نافذ ہونا بہت ضروری ہے ، اس وطن کے لئے ہمارے آباﺅ اجداد نے بہت قربانیاں دی ہیں ، ہماری کوئی بھی تلخی اس حد تک نہیں جانی چاہیے کہ اس وطن کونقصان ہو ۔

محمد بن قاسمؒ نے اس خطے میں کلمہ حق پہنچایا اور یہ صدقہ جاریہ ان کی مرہنون منت ہے اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب وقت کے بادشاہ نے اپنے تمام سپہ سالاروں کو گرفتار کرکے واپس لانے کا حکم دیا تو محمد بن قاسم کے ساتھیوں نے انہیں بغاوت کا مشورہ دیا.

کہا کہ ہمارے پاس اتنے ساتھی ہیں کہ ہم اپنی سلطنت کے قیام کااعلان کرسکتے ہیں اور کسی کی جرات نہیں کہ آپ کو یہاںسے گرفتار کرکے لے جائے مگر محمد بن قاسم نے بہت تاریخی الفاظ کہے کہ سلطنت اسلامی کے سامنے محمد بن قاسم کی کوئی اوقات نہیں ہے جب محمد بن قاسم اس خطے میں آئے تو اس وقت پانی سے خشکی پر پاﺅں رکھنا مشکل تھا جب وہ پلٹا تو عوام کا جم غفیر ان کے گرد جمع تھا اور انہوں نے اسلامی سلطنت کے اصولوں کو مقدم رکھا۔

جب بھی بات اپنے ملک کی ہو تو پھر ذاتی حیثیت کچھ نہیں ہوتی اور وقت ثابت کرے گا کہ ظالم کون تھا اور مظلوم کون تھا ؟ ہر ایک کو اپنے بنیادی کردار کی پاسداری کرنا ہے اور ہر اس عمل سے بچنا ہے جس سے وطن عزیز کا نقصان ہو۔

جناب امیر عبدالقدیر اعوان کا کہنا تھا کہ ہماری اپنی غلطیاں اس ملک کو اتنا زیادہ نقصان نہیں پہنچا رہیں جتنا گردو پیش کی مداخلت اور سازشیں ہمارے ملک کا نقصان کررہی ہیں ہمیں ذمہ دار پاکستانی ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔

جب ہماری تلخیاں بڑھیں گی اور ذمہ داری کا احساس نہیں ہو گا تو بچے اور بوڑھے سب اس گھر کی اینٹیں اٹھا اٹھا کر باہر پھینکیں گے ، کوئی بھی عالم اور مقرر امن کی بات کرنے کی بجائے چند باتیں کرکے فقہی تقسیم پیدا کرسکتا ہے لیکن ہم اپنے اس ملک کے ہونے سے ہیں.

اس ملک کا ہر ادارہ ہمارا ہے جس ادارے کو خراب کررہے ہیں وہ بھی ہم کررہے ہیں ، لوگ اس دور میں بھی پیدا ہوئے جب اسلام ہر طرف جھنڈے گاڑھ رہا تھا اور اس دور میں بھی پیدا ہوئے جب محکومی پنجے گاڑھ چکی تھی مگر ہر کسی کو اپنے اپنے کردار کا جواب دینا ہے .

ہمارا مل بیٹھنے کا مقصد ہے کہ ایک دوسرے کی اصلاح کریں اور امت کو اسلام کے جھنڈے تلے اکٹھا کریں ۔حضرت امیر عبدالقدیر اعوان اصلاح معاشرہ کے لئے ملک کے طول و عرض کا سفر کرتے ہیں اور اس کا واحد مقصد امت کو فرقہ واریت سے نکال کر اسلام کے جھنڈے تلے لانا ہے اور یہ ایک عظیم مقصد ہے۔

Comments are closed.