بہت بولتے ہو !

محبوب الرحمان تنولی

لوگ کبھی کبھی ججوں کو مشورہ دیتے ہیں ۔۔جج کا فیصلہ بولنا چایئے زبان نہیں۔۔ مگر جب میں بولوں اور میرا ہر ہر لفظ ٹی وی کا ٹکربن جائے ۔ سارے ریمارکس خبر بن جائیں تو پھر میں کیوں نہ بولوں؟۔۔مزید تبصرے کی ضرورت نہیں ۔۔ توہین عدالت کااحتمال ہے۔۔جب کبھی پیمرا نے عدالتی کارروائی کے دوران ججز ریمارکس کے ٹکرز بنانے پر پابندی لگا دی پھر دیکھا جائے گا۔۔ ابھی تو گیم آن ہے۔

کم بولنے کا مشورہ تو حکمرانوں کو دینا تھا ۔ ۔ عدلیہ تو ہماری بیٹ ہی نہیں ہے نہ ہماری پہنچ ۔۔ ۔معیشت سابق حکمرانوں کی وجہ سے خراب ہے۔۔ اربوں کی منی لانڈرنگ ہوئی ہے۔۔وہ باریاں لیتے تھے۔۔ لوگوں نے آپ کو تبدیلی کیلئے ووٹ دیئے ہیں۔۔ وہ عدالت کو مطلوب اور سزا یافتہ ہیں۔۔ اور آپ عدالت سے تصدیق شدہ صادق اور آمین۔۔ سابق وزراء بھی وزیراعظم کی ٹیم بن کر اداروں کو بے قاعدگیوں کو نذر کرتے رہے۔

متذکرہ گردان سنتے سنتے لوگوں کو آپ کے یہ الزامات پارٹی ترانوں کی طرح یاد ہو چکے ہیں۔۔۔ جناب وزیراعظم! اب اس سے آگے چلیں۔بیانات اور الزامات سے نکلیں ۔۔۔سو دن یا چار ماہ کسی حکومت کی کامیابی یا ناکامی کا معیار نہیں ہوتے۔۔۔ اس لئے ابھی حکومت کو کامیاب یا ناکام قرار نہیں دیا جاسکتا۔۔ اس بات میں بھی شک نہیں حکومت متحرک ہے۔

پھر بھی جمہوری نظام میں بے چینی ، عدم استحکام، بے ترتیبی،عد م ٹھہراو، وسوسے،تذبذب،قیاس آرائیاں زیر گردش ہیں۔ افواہ ساز فیکٹریاں بھی طرح طرح کی کہانیاں چھوڑ رہی ہیں۔یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہے کہ وزیراعظم اور کابینہ کے لوگ ضرورت سے زیادہ بولتے ہیں۔۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ ہر بال پر دو رنز لینے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔

جب مقدمات عدالتوں میں ہیں۔۔ انکوائریاں نیب میں ہیں۔۔ ادارے آپ کی گائیڈ لائن پر منی لانڈرنگ کے کھوج لگانے میں کوشاں ہیں۔۔ پھر آپ اداروں کے نتائج کاانتظار کیوں نہیں کرتے؟۔۔وزیراعظم عمران خان ہمیں کیوں بتاتے ہیں کہ فلاں پارٹی کے اتنے لوگ اندر ہو جائیں گے۔۔ وزیراطلاعات کو اپنی سابق جماعت کے لوگوں کی گرفتاری کی کیا جلدی ہے؟

چلیں آپ کی مان لیتے ہیں کہ آپ انتقامی کارروائیوں پر یقین نہیں رکھتے ۔ آپ پسند نا پسند کا احتساب نہیں چاہتے ۔ تو پھر نقارے کیوں بجاتے ہیں ؟ یہ تاثر کیوں دینا بند نہیں کرتے ہیں آپ کے اشارے پر نیب چل رہا ہے۔آپ ہر قدم کیوں ایسا اٹھا رہے ہیں جس سے ان الزامات کوتقویت ملتی ہے کہ آپ خود فیصلہ نہیں کررہے،آپ کے قول و فعل میں مماثلت کا فقدان خدشات کو جنم دیتاہے۔ ۔

وزیراعظم اور وزراء کے روزانہ کے بیانات سے لگتاہے کہ آپ نے مخالفین کو احتساب کرکے سائیڈ لائن کرنے کا پروگرام بنا رکھا ہے۔۔
احتساب اگر ناگزیر ہے تو پھر اس کو اداروں تک چھوڑ دیں۔۔ آپ پیچھے ہٹ جائیں، بیان بازی سے اجتناب کریں۔ ۔ آپ کے بڑھ چڑھ کر بولنے کی وجہ سے نیب کے وہ مقدمات جو موجودہ حکومت سے پہلے سے بنے ہوئے ہیں وہ بھی آپ کے کھاتے میں پڑ رہے ہیں۔۔
کیا بولے بغیر کام نہیں ہو سکتا؟

کیا اقتدار کی مسند شور شرابے کی متقاضی ہے؟۔۔ ہر گز ایسا نہیں ہے۔ اگر آپ کے پاس پروگرام ہے ، مستقبل کا لائحہ عمل ہے۔ حکمت عملی ہے ، آئیڈیا ز ہیں۔ ملک کو قوم کو مشکل سے نکالنے کی صلاحیت و اہلیت ہے تو آپ ملک کو مضبوط پوزیشن پر لا کر ۔۔ سسٹم کو بہتر بنا کر بھی اہداف حاصل کرسکتے ہیں۔۔ بے شک نواز شریف اور آصف زرداری کو عدالتیں چھوڑ دیں۔۔۔

جناب وزیراعظم!
وثوق سے کہا جاسکتاہے کہ آپ نے اگر ملک کو پانچ سالوں میں کسی بہتر پوزیشن میں لا کھڑا کیا اور پانچ سال بعد انتخابات لڑنے گئے تو لوگ آپ سے یہ نہیں پوچھیں گے کہ نواز شریف اور زرداری قید ہیں یا آزاد ہیں؟۔۔ آپ اپنے وعدے کے مطابق بیرون ملک لوٹی گئی دولت کی واپسی کی کوششیں کریں مگر ایسا تاثر نہ ابھرے کہ یہ آپ ذاتی لڑائی کی وجہ سے کررہے ہیں ۔

کرتار پورراہداری، امریکہ کو منہ توڑ جواب، کسی کی جنگ نہ لڑنے کی پالیسی، سعودی عرب ،یو اے ای اور چین سے مالی معاونت ملنا اور دوستانہ تعلقات کا با وقار انداز میں آگے بڑھنا پی ٹی آئی حکومت کی کامیابیاں ہیں۔۔آپ کی ٹیم اتنا انتقامی ہے نہیں جتنا زبان سے حملہ آور ہوتی ہے۔

کبھی کبھی آ پ کے مخالفین آپ کو کنٹینرسے اترنے کا مشورہ دیتے ہیں تو یقینا یہ قابل غور مشورہ ہے۔۔ گرفتاری نیب کرتاہے بیان وزراء کا آ جاتاہے۔۔ ابھی تو اور بھی پکڑے جائیں گے۔۔ آپ خود اعتراف کررہے ہوتے ہیں کہ آپ ہی سب کچھ کررہے ہیں۔۔ روایتی سیاست گرچہ زیادہ تر منافقت پر چلتی ہے لیکن اس میں کہیں کہیں روا داری بھی ضرور ہوتی ہے۔۔

اسی روا داری کی وجہ سے ہی آج پھر نواز شریف اور آصف زرداری ملاقات کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔۔ شیخ رشید کو چپڑاسی کہہ کر۔ چوہدری برادران کے خلاف سخت زبان استعمال کرکے اور ایم کیو ایم کے حوالے سے دو ٹوک مخالفانہ موقف رکھنے کے بعد ساتھ بیٹھنے کی اذیت سے آپ کوسیکھ لینا چایئے کہ کل اگر کسی موڑ پر سیاست میں ساتھ بیٹھنا پڑ جائے تو بیٹھ سکیں۔

مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والا ایک بڑا حلقہ آج بھی آپ کی صلاحیتوں کا معترف ہے۔ لوگ آج بھی سمجھتے ہیں عمران خان کچھ بھی کر سکتاہے۔۔ آپ کا طلسماتی سحر آ ج بھی باقی ہے ۔۔ اپنی شخصیت کو مسخ ہونے سے بچا کر قیادت کریں۔ ۔یقینا کامیابی بڑے ارادوں سے ملتی ہے اور عمران خان پاکستان کیلئے بڑے ارادے ہی لے کر آیاہے۔

ریاست مدینہ اس دور میں بننا ممکن نہیں ہے۔۔ لیکن یہ بات بھی ایک بڑی خوشخبری ہے کہ ہمارا وزیراعظم متاثر ریاست مدینہ سے ہے۔۔ ریاست مدینہ کی طرح چلنا چاہتا ہے۔۔ یہاں پھر یہ مشورہ دینا تو بنتا ہے کہ ریاست مدینہ کیلئے آپ کے اپنے اخلاق تو مثالی ہونے چاہئیں۔ کل کے عمران خان پر جو مرضی دشنام طرازی ہوتی رہے آج کا عمران خان کل سے بہتر ہو۔

حکومت کی کفایت شعاری پر انگلیاں اٹھانے والے جب اکیلے اکٹھے بیٹھتے ہیں تو اپنے کیئے پر شرمندہ ہوتے ہیں۔۔بدقسمتی سے من حیث القوم ہم میں اچھے کام کا اعتراف کرنے کی عادت نہیں ہے۔ ۔ آپ خود بھی اس معاملے میں کنجوس واقعہ ہوئے ہیں۔۔ ورنہ نوازشریف پر بے شمار الزامات سہی کچھ اچھے کام تو ایسے تھے جن کی تعریف کی جاسکتی تھی۔۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا ں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔۔

آپ با اختیار ہیں اپنے فیصلے کرکے ملک کو اپنے وژن پر چلا ہیں۔اگر کوئی سابقہ لاحقہ ہے تو یہ جمہوریت کیلئے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔شتر بے مہار بھی نہ ہوں اور بے سمت بھی نہ رہیں تو منزل تک پہنچا جا سکتاہے۔۔ چابک دینے والے تو ہر وقت سر پٹ دوڑتے ہوئے کو پسند کرتے ہیں ۔ یہ دوڑ صرف مقابلے کیلئے نہیں ملک کی جیت کیلئے ہونی چایئے۔

Comments are closed.