سابق آرمی چیف جنرل باجوہ سائفر کیس میں بطور گواہ پیش ہونے کوتیار

52 / 100

فوٹو: فائل

اسلام آباد: سابق آرمی چیف جنرل باجوہ سائفر کیس میں بطور گواہ پیش ہونے کوتیار ہیں، تاہم انہیں اس بات کیلئے فوجی حکام سے اجازت کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔

یہ دعویٰ روزنامہ جنگ میں سینئر صحافی انصار عباسی کی ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے،رپورٹ کے مطابق سائفر کیس میں گزشتہ سماعت کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’’میں کیس میں جنرل باجوہ اور امریکی سفارت خانے کے حکام کو بطور گواہ شامل کروں گا۔‘‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ باجوہ سے بات چیت کرنے والے ذریعے نے دعویٰ کیا کہ ریٹائرڈ جرنیل سائفر کیس میں بطور گواہ پیش ہونے کیلئے تیار ہیں۔ تاہم، انہیں فوجی حکام سے اجازت کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔

عمران خان نے الزام عائد کیا تھا کہ جنرل باجوہ نے سب کچھ ڈونلڈ لوُ کی ہدایت پر کیا۔ عمران خان کے الزامات تمام پراسیکوشن گواہان بشمول سابق سیکریٹری خارجہ امور اور امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر کے بیانات سے مطابقت نہیں رکھتے۔

یہ بھی کہ پاکستانی سفیر کی ڈونلڈ لو کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے بعد ہی سفیر نے وزارت خارجہ کو سائفر بھیجا اور ایسے معاملات میں یہ کام معمول کا حصہ ہے۔ یہ سائفر اگرچہ جارحانہ معلوم ہوا اور اسی وجہ سے پاکستانی سفیر نے نہ صرف واشنگٹن کو ڈی مارش جاری کرنے کی سفارش کی بلکہ قومی سلامتی کمیٹی نے بھی یہ اقدام دو مرتبہ کیا۔

اس کے بعد ہی ایک مرتبہ عمران خان حکومت اور اس کے بعد شہباز شریف حکومت کے دوران ڈی مارش کیا گیا۔ دونوں مرتبہ کسی سازش کا پتہ نہیں چلا۔ تاہم، عمران خان کا اصرار ہے کہ یہ حکومت کی تبدیلی کی سازش تھی۔

رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم کے اس وقت کے سیکرٹری اعظم خان نے اپنے مبینہ بیان میں کہا کہ عمران خان نے سائفر کا مواد پڑھ کر اسے امریکی اہلکار کی غلطی قرار دیا اور زور دیا کہ اسے اپوزیشن جماعتوں اور ریاستی ادارے کیخلاف بیانیہ پیدا کرنے کیلئے موثر انداز سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اعظم خان کے مطابق، سابق وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کیخلاف سائفر ٹیلی گرام کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔اعظم خان نے کہا کہ عمران خان نے ایک سیاسی بیانیہ بنانے کی بات کی کہ اپوزیشن جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی ملی بھگت اور امریکا کے ساتھ مل کر ان کی حکومت گرانے کی سازش کر رہے ہیں۔

واضح رہے مزکورہ رپورٹ میں اعظم خان کے بیان کا حوالہ دیا گیا ہے جو بیان سرکاری ریکارڈ کا حصہ بن چکا ہے تاہم اعظم خان نے ابھی تک آزاد میڈیا کے روبرو ایسی کوئی بات نہیں کی ہے، اس کے برعکس نیشنل سکیورٹی کمیٹی اسی سائفر کی بنیاد پر ڈیمارش کر چکی جس پر پی ڈی ایم کی جماعتیں شکوک شبہات ظاہر کرتی ہیں.

جنرل ریٹائرڈ باجوہ کے پیش ہونے کا دعویٰ روزنامہ جنگ میں سینئر صحافی انصار عباسی کی ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے، متذکرہ صحافی مبینہ طور پر اس حلقے میں شامل سمجھے جاتے ہیں جن کے بارے میں قیاس ہے کہ ایسی خبریں ایسے حلقوں کے زریعے سامنے آتی ہیں.

امریکی اور انگریزی صحافت میں بعض اوقات خواہش کو خبر بنانے کیلئے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ذرائع کا حوالہ دیا جاتا ہے جبکہ مزکورہ رپورٹ میں سابق آرمی چیف سے بات چیت کرنے والے ایک ذریعے سے خبر کو منسوب کرکے بتایا گیا ہے کہ جنرل رباجوہ شاید عمران خان کو مایوس نہ کریں.

Comments are closed.