سنکیانگ میں ویغور نوجوانوں نے کنگ فو کا خواب پورا کرلیا

50 / 100

ارمچی (شِںہوا) ارمچی میں پہلے نسلی کھیلوں کاانعقاد 1985 میں ہوا تھا جس کے بعد سے یہ سنکیانگ ویغور خوداختیار خطے کی باوقارتقریبات میں ایک بن چکا ہے۔

ہمیشہ کی طرح رواں سال ستمبرمیں منعقدہ مقابلوں میں جہاں کھیلوں کے ہزاروں شائقین کے خواب پورے ہوئے وہاں سنکیانگ میں ویغور نوجوانوں نے کنگ فو کا خواب پورا کرلیا.

رواں سال کے مقابلے میں 22 سالہ عبداللہ باتورکان اور ان کے جڑواں بھائی عبدالرحمان باتورکان نے شرکت کی، اور مارشل آرٹس میں فن کے جوہر دکھائے۔ ان کے لئے اگرچہ نسلی کھیل نئے ہیں لیکن کنگ فو خواب ان کےدل و دماغ پر چھایا ہوا ہے۔

عبداللہ نے کہا کہ میں اور میرا بھائی بچپن سے ہی جیکی چن کے مداح رہے ہیں، ہمارے پاس اکٹو کاؤنٹی میں صرف ایک جم ہوا کرتا تھا،جہاں ساندا (جسے چینی باکسنگ بھی کہاجاتا ہے) کی تر بیت دی جاتی تھی۔

اب میں یونیورسٹی میں روایتی چینی مارشل آرٹس بارے مزید سیکھ رہا ہوں
اب عبداللہ جزوقتی کوچ کے طور پر بچوں کو کنگ فو سکھارہے ہیں۔ ” میرے پاس یومیہ4 کورسز میں 200 بچے ہیں۔ لیکن میں کبھی تھکاوٹ محسوس نہیں کرتا کیونکہ مجھے کنگ فو سے لگاؤ ہے۔

ان کے بھائی عبدالرحمٰن نے یونیورسٹی میں پبلک مینجمنٹ پڑھنے کا فیصلہ کیاتاہم ان کا کنگ فو کا شوق کم نہ ہوا ،اور انہوں نے اپنے بھائی کے ساتھ تربیت جاری رکھی۔

بالآخرسخت محنت رنگ لے آئی اور یہ دونوں بھائی نسلی کھیلوں میں شرکت کے لئے اہل 100سے زیادہ اسکول طلبا میں شامل ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ ” ہم نے آخرکار اسے پالیا.

ہمارے خاندان کے افراد اور دوستوں کو ہم پر فخر ہے۔ کئی برس سے میں کھیلوں کے بڑے مقابلوں میں حصہ لینے بارے پرامیدتھا۔ اب میں بہت خوش ہوں میرے پاس ایک ایسا اسٹیج ہے جہاں ہر کوئی مجھے دیکھ سکتا ہے”۔

مقابلوں کے آخری روز عبدالرحمٰن نے ہاتھوں میں دو تلواریں لیکر مارشل آرٹس میں فن کا مظاہرہ کیا۔ چینی زبان میں کہا جائے تو انہوں نے شیر کی طرح پوری قوت کےساتھ فن کے جوہر دکھائے۔ سب نے ان کے لئے خوشی کا اظہار کیا۔

کھیلوں کے میدان سے باہر بھی ان جڑواں بچوں کے لئے کھیل بارے جذبات کبھی ختم نہیں ہوتے۔ عبداللہ نے کہا کہ وہ مستقبل میں کنگ فو ثقافت کو سکھانے اور فروغ دینے کےلئے اس کےکوچ بنیں گے۔

وہ یونیورسٹی میں تیسرے سال کے طالب علم ہیں، انہوں نے کہا کہ "مارشل آرٹس کا مظاہرہ ہماری جسمانی صلاحیت بہتر بنانے کے لئے ہی نہیں ہے۔یہ ہماری روایتی چینی ثقافت کی جستجو بھی ہے”۔

Comments are closed.