تحریک عدم اعتماد سے قبل مسلم لیگ ن باہمی اختلاف رائے کا شکار

53 / 100

اسلام آباد(زمینی حقائق ڈاٹ کام)تحریک عدم اعتماد سے قبل مسلم لیگ ن باہمی اختلاف رائے کا شکار ہے،سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی توڑ جوڑ کی پرانی سیاست کے مخالف ہیں، احسن اقبال نمبرز پورے کرنے کے حامی ہیں.

ذرائع کے مطابق اپوزیشن کے تمام تر دعووں کے باوجود شہبازشریف عبوری وزیراعظم بننے میں تذبذب کا شکار ہیں اور اوپر سے چئیرمین پیپلز پارٹی کی طرف سے عبوری وزیراعظم کے کردار کی تشریح نے مشکل کھڑی کر دی ہے.

ایک طرف مسلم لیگ ن سمیت اپوزیشن جماعتیں حکومتی ارکان کے ساتھ ہونے دعوے کر کے اعصابی حربے آزما رہی ہیں تو دوسری طرف تبدیلی کے اس تصور پر مریم نواز خاموش ہیں.

پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی حکومتی اتحادیوں خصوصاً چوہدری برادران کی حمایت حاصل کرنے کیلئے ایک بہتر پیکج آفر کرنے جا رہی ہیں جبکہ شاہد خاقان عباسی اعلانیہ کہہ رہے ہیں کہ 10 بندوں کی پارٹی کوعہدہ دینے کے حق میں نہیں ہوں.

مسلم لیگ ق کی قیادت نے شہباز شریف کی دعوت قبول کرنے کی بجائے معذرت کی، حکومت کی حمایت کا واضح اعلان کیا اس کے باوجود مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور جے یو آئی ف کی اعلیٰ قیادت پھر آفرز دینا چاہتے ہیں

اپوزیشن 20 سے 25 حکومتی ارکان کی حمایت کے دعووں کے باوجود ق لیگ کی حمایت کے بغیر رسک لینے کو تیار نہیں ہے حالانکہ فرق صرف 9 ووٹوں کا ہے حکومتی ارکان ساتھ ہیں تو پھر ق لیگ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی.

مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں نے متفقہ طور پر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے پہلے حکومتی اتحادیوں کو ساتھ لے کر وسیع البنیاد اتفاق رائے پیدا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اور پی پی پی کی قیادت نے تحریک پیش کرنے میں جلد بازی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اتحادیوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے مزید کوششیں کی ہیں، انہیں عوام میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کے حوالے سے زمینی حقائق سے آگاہ کیا جائے.

احسن اقبال  دعویٰ کیا کرتے ہیں کہ اپوزیشن کے پاس وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے مطلوبہ تعداد پہلے ہی موجود ہے، لیکن ان کا خیال تھا کہ انہیں اتحادیوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری اعصابی جنگ میں فریقین کے تمام تر دعووں کے باوجود دونوں طرف دباو موجود ہے اور حکومت اور اپوزیشن کو اپنے ارکان کے چلے جانے کے خدشات تاخیر کی وجہ بنے ہوئے ہیں  .

Comments are closed.