غیر ملکی فوج کی افغانستان موجودگی معاہدہ کی خلاف ورزی ہوگی، طالبان


اسلام آباد( ویب ڈیسک)طالبان نے دبے لفظوں میں ستمبر کے بعد افغانستان میں غیر ملکی افواج کی موجودگی کودوحا معاہدہ کی خلاف ورزی قرار دیاہے اور کہا ہے اگر ایسا ہوا تو ہم ردعمل دیں گے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے قطر دفتر سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ انخلا کے مکمل ہونے کے بعد کوئی غیر ملکی افواج، جن میں فوجی کانٹریکٹر بھی شامل ہیں، ملک میں نہیں رہنے چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی افواج کو پیچھے چھوڑتے ہیں تو اس صورت میں یہ ہماری قیادت کا فیصلہ ہو گا کہ ہم کس طرح آگے بڑھیں۔ہم اس پر ردعمل دیں گے اور حتمی فیصلہ ہماری قیادت کا ہو گا۔

ترجمان طالبان نے واضح کیاکہ ہم غیر ملکی فوجی قوتوں کے خلاف ہیں لیکن سفارت کاروں، این جی اوز، سفارتخانے اور ان میں کام کرنے والے والوں کے خلاف نہیں کیونکہ ان کی ہمارے لوگوں کو ضرورت ہے۔ ہم ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں بنیں گے۔

سہیل شاہین نے کہا کہ ہماری طرف سے سفارت کاروں، غیر سرکاری تنظیموں اور دیگر غیر ملکیوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا اس لئے افغانستان میں کسی بھی غیر ملکی حفاظتی فورس کی ضرورت نہیں ہے۔

طالبان نے کہا ہے کہ اگر ستمبر میں نیٹو افواج کے انخلا کی آخری تاریخ کے بعدبھی افغانستان میں کسی بھی غیر ملکی فوج کے کوئی اہلکار افغا نستان میں رہ جائیں گے تو ہمیں ان سے خطرہ رہے گا۔

قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کی طرف سے یہ وضاحت ان اطلاعات کے بعد سامنے آئی ہے جن کے مطابق ایک ہزار امریکی فوجی سفارتی مشن اور کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی حفاظت کے لیے افغانستان میں رہ سکتے ہیں۔

واضح رہے کہافغانستان میں نیٹو کا 20 سال جاری رہنے والا فوجی مشن دوحا معاہدہ کے تحت ختم ہو رہا ہے اور اس معاہدہ کی ایسی کوئی شق نہیں تھی جس کے تحت غیر ملکی فوجی معاہدہ کے باوجود بھی افغانستان میں قیام کرسکیں۔

اس دوران سہیل شاہین نے گذشتہ ہفتے افغانستان میں امریکہ کے سب سے بڑے فوجی اڈے بگرام ایئر بیس سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کو تاریخی لمحے کے طور پر بیان کیا۔

ادھر افغان صدر اشرف غنی اس بات پر بضد ہیں کہ ملک کی سکیورٹی فورسز باغیوں کو قابو میں رکھنے کی پوری قابلیت رکھتی ہیں لیکن زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے اور غیر ملکیوں کی موجودگی میں ہی طالبان کی فتوحات کا سلسلہ جاری ہے۔

Comments are closed.