تھینک یو مسٹر بوزکر

حامد میر

طویل عرصے کے بعد ایوان صدر جانا ہوا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر وولکن بوزکر کے اعزاز میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے عشائیہ تھا اور اس عشائیے سے قبل معزز مہمان کو ہلال پاکستان دیئے جانے کی تقریب بھی تھی۔

میں وولکن بوزکر کو صرف قریب سے ایک نظر دیکھنے اور ان کی خدمت میں اپنا سلام عقیدت پیش کرنے کی تمنا رکھتا تھا۔جب صدر پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کو ہلال پاکستان پیش کیا تو میں بانی پاکستان قائد اعظم  محمد علی جناح کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔وولکن بوزکر نے اپنے حالیہ دورہ اسلام آباد کے دوران مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر کو ایک ہی تصویر کے دو رخ قرار دیا اور کہا کہ مسئلہ کشمیر کے فریقین کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں جموں و کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے سے باز رہنا چاہئے اور یہ مسئلہ پرامن طریقے سے حل کرنے پر توجہ دینی چاہئے ۔

ان کے اس بیان پر بھارت میں کھلبلی مچ گئی اور بھارتی حکومت نے وولکن بوزکر کے بیان کی مذمت کر دی ۔وولکن بوزکر کا یہ بیان قائد اعظم کی سوچ کے عین مطابق تھا۔ قائد اعظم نے اپنی وفات سے کچھ دن پہلے عید کے موقع پر 27اگست 1948ء کو ایک پیغام جاری کیا تھا۔ اس پیغام میں بانی پاکستان نے عید مبارک کے بعد کہا ہم سب یکساں طور پر خطرناک اور کٹھن دور سے گزر رہے ہیں۔ سیاسی اقتدار کا جو ڈرامہ فلسطین، انڈونیشیا اور کشمیر میں کھیلا جا رہا ہے وہ ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہونا چاہئے ۔ہم اپنے اسلامی اتحاد کے ذریعے ہی دنیا کے مشورہ خانوں میں اپنی آواز کی قوت محسوس کرا سکتے ہیں ۔(بحوالہ افکار قائداعظم، مرتب شاہد رشید)

قائد اعظم نے جب فلسطین اور کشمیر کے ساتھ انڈونیشیا کا ذکر کیا تو انڈونیشیا پر ولندیزیوں (ڈچ) کا قبضہ تھا ۔1949ء میں انڈونیشیا آزاد ہوگیا لیکن فلسطین اور کشمیر ابھی تک آزاد نہیں ہوئے۔ان دونوں تنازعات کو الجھانے میں برطانیہ نے مرکزی کردار ادا کیا اور قائداعظم  نے تمام زندگی برطانیہ کے سامراجی کردار کے خلاف شدید مزاحمت کی۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کے اعزاز میں منعقد کئے گئے عشائیے میں انڈونیشیا سمیت کئی اہم ممالک کے سفیر موجود تھے۔ایک یورپی سفارتکار نے مجھ سے پوچھا کہ آج کل کچھ لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ پاکستان کے مسلمان فلسطینیوں کی حمایت میں تو سڑکوں پر آتے ہیں لیکن افغانوں کی حمایت میں سڑکوں پر کیوں نہیں آتے؟

میں نے بڑے ادب سے اس سفارتکار کو کہا کہ میں آپ کے سوال کا جواب ضرور دوں گا پہلے آپ یہ بتائیں کہ لندن اور پیرس کے لوگ فلسطینیوں کی حمایت میں تو سڑکوں پر آتے ہیں لیکن افغانوں کی حمایت میں سڑکوں پر کیوں نہیں آتے؟ سفارتکار نے کچھ سوچا اور پھر کہا کہ سوال تو اچھا ہے لیکن اس کا جواب بھی آپ دیں۔

میں نے عرض کیا کہ اسرائیل نے ایک غاصب اور ظالم ریاست کی طرح بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر فلسطینیوں پر اندھا دھند بمباری کی اور درجنوں بچے شہید کر دیئے جس کی وجہ سے یورپ اور امریکہ میں اسرائیل کے خلاف بڑے بڑے جلوس نکلے۔ بچے تو افغانستان میں بھی شہید ہوتے ہیں لیکن وہاں افغان نیشنل آرمی بھی مسلمان ہے اور طالبان بھی مسلمان ہیں۔ جب مسلمان آپس میں لڑتے ہیں تو کسی ایک گروہ کو غیر ملکی طاقتوں کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں لہٰذا باقی مسلمان کنفیوز رہتے ہیں۔ پاکستان کے لوگوں کی سڑکوں پر نکلنے کی وجہ ذرا مختلف ہے۔ پاکستان کے لوگوں نے نسل در نسل کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم کی داستانیں سنی ہیں۔

اس مرتبہ 27 رمضان المبارک کو اسرائیلی پولیس نے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی تو صرف پاکستان نہیں بلکہ افغانستان میں بھی احتجاج ہوا لہٰذا پاکستان میں یہ ایک مذہبی مسئلہ ہے کیونکہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ۔یورپ اور امریکہ میں یہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ ہماری گفتگو میں ایک ترک سفارتکار بھی شامل ہو چکے تھے اور وہ بتا رہے تھے کہ بظاہر ترکی ایک سیکولر ریاست ہے لیکن ترکوں کی بڑی اکثریت بھی فلسطین کو ایک مذہبی مسئلہ سمجھتی ہے ۔اس دوران وولکن بوزکر کو ہلال پاکستان دینے کی تقریب شروع کرنے کا اعلان ہوا اور ہماری گفتگو ختم ہو گئی۔

وولکن بوزکر کا تعلق ترکی سے ہے۔ انہوں نے 28مئی کے دن نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں کھڑے ہو کر فلسطین اور کشمیر کے تنازعات جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت پر زور دینے کے علاوہ افغانستان کا بھی ذکر کیا جہاں قیام امن کیلئے پاکستان اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ پاکستان کو افغانستان میں قیام امن کیلئے اپنا مثبت کردار ضرور ادا کرنا چاہئے لیکن یہ کردار قائد اعظم کی سوچ کے مطابق ہونا چاہئے ۔قائد اعظم  کی سوچ ہمیں مختلف خارجہ امور پر ان کے بیانات اور تقاریر میں واضح نظر آتی ہے ۔

قائداعظم نے سیکرٹری خارجہ کے طور پر اکرام اللہ کو خود چنا تھا۔ 14اگست 1947ء سے لیکر 27دسمبر 1947ء تک وزیر اعظم لیاقت علی خان کی کابینہ میں کوئی وزیر خارجہ نہیں تھا اور سیکرٹری خارجہ براہ راست قائداعظم سے ہدایات لیتے تھے۔ قائد اعظم  ایک آزاد خارجہ پالیسی کے حامی تھے۔ انہوں نے مسئلہ فلسطین پر برطانیہ کی وعدہ خلافیوں کو بار بار بے نقاب کیا اور فلسطین کی تحریک مزاحمت کے اہم رہنما مفتی امین الحسینی سے کئی سال تک براہ راست رابطہ رکھا۔

قائد اعظم  کے الفاظ پر غور کریں۔آزادی کیلئے لڑنے والوں کو ڈاکو اور دہشت گرد کہنا بے رحمی ہے۔ قائد اعظم  کے یہ الفاظ فلسطینی حریت پسندوں پر بھی صادق آتے ہیں اور کشمیری حریت پسندوں پر بھی صادق آتے ہیں ۔کسی بھی قابض فوج یا غیر ملکی طاقتوں کی نمائندہ کٹھ پتلی حکومت کا سہولت کار بننا قائداعظم کی سوچ کے منافی ہے ۔24اکتوبر 1947ء کو قائد اعظم  نے رائٹرز کے نمائندے کو انٹرویو میں کہا کہ اگر فلسطین کو تقسیم کیا گیا تو اس سے ناقابل مثال تباہی و بربادی نازل ہو گی۔پاکستان عربوں کی پوری حمایت کرے گا بلکہ اس ناانصافی کو روکنے کیلئے ہر وہ قدم اٹھائے گا جو اس کے اختیار میں ہو گا۔

قائداعظم کے الفاظ پر غور کریں ۔ذرا سوچیں ہمارے اختیار میں کیا ہے اور کیا نہیں ؟ ہم فلسطین اور کشمیر پر صرف بیان بازی اور تقریریں کرتے ہیں لیکن افغانستان میں کیا کرنا چاہتے ہیں؟ افغانستان میں احتیاط کی ضرورت ہے ۔وولکن بوزکر کی سوچ بالکل ٹھیک ہے امن مذاکرات کیلئے سہولت کاری ضرور کیجئے لیکن ان غیر ملکی طاقتوں کے جال میں نہیں پھنسنا چاہئے جو فلسطین اور کشمیر کے مسائل حل کرنے کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ)

Comments are closed.