ذرا بچ کے

شمشاد مانگٹ

وفاقی دارالحکومت کی مشہور مارکیٹ آبپارہ میں معمول سے زیادہ رش تھا اور میں قصائی کی دکان سے گوشت خریدنے کے لئے پارکنگ کی تلاش میں مارکیٹ کے دو چکر لگا چکا تھا اڑھائی چکر پورے ہوئے تو ایک گاڑی کی لائٹیں جلیں جس کا مطلب تھا اس شہری نے ضروریات زندگی کی خریداری مکمل کر لی ہے اور اب وہ پارکنگ چھوڑنے کیلئے مکمل تیار ہے۔

گاڑی پارک کرنے کے لئے میں نے سڑک پر ہی بریک لگا دی اور چند لمحوں میں میرے پیچھے گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں اور ہارن زور زور سے بجنا شروع ہو گئے لیکن میرے ذہن میں بہت ہی پیارے دوست ملاں دو دھاری تلوار کی کئی باتوں میں سے ایک بات یہ بھی بار بار حملہ کر رہی تھی کہ کسی بھی مارکیٹ میں پارکنگ کی تلاش میں اگر سات چکر پورے ہو جائیں تو اس جگہ دوسری اور تیسری شادی کے ”ذخائر“ موجود ہو سکتے ہیں۔

قصائی کی دکان پر بیٹھے بیٹھے مجھے ملاں دو دھاری تلوار کی گزشتہ روز ٹیلی فون پر کی گئی وہ نصیحت آموز گفتگو بھی یاد آ گئی جو انہوں نے وکلاءکے خلاف میرا کالم پڑھ کر کی تھی۔ ملاں دو دھاری تلوار کا کہنا تھا کہ وکیل اور ڈاکٹروں سے ہمیشہ اللہ کی پناہ مانگو جو وکیل کو چھیڑتا ہے اس کے زمین سے چھ فٹ اوپر لٹکنے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں اور جو ڈاکٹروں سے پنگا لیتا ہے اس کو زمین کے چھ فٹ نیچے جانے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔

محترم ملاں دو دھاری تلوار نے میری انہماکی کو دیکھتے ہوئے بہت ہی شفیق انداز میں اور رازوں سے پردہ اٹھانا شروع کیا اور کہا کہ بھائی ہمارے دانشور صرف ایک شعر کے پیچھے ہی دوڑ رہے ہیں کہ ا کبر الہ آبادی نے کہا تھا.
پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحبِ اولاد ہو گئے

ملاں کا کہنا تھا کہ یہ شعر اس دور میں لکھا گیا جب سفید کوٹ والے ڈاکٹر خال خال ہی ملتے تھے اور ان کی سیاہ کاریاں ابھی عیاں نہیں ہوئی تھیں اور ویسے بھی وہ دور حکیموں کا دور تھا اس لئے ادھورے شعر کا الزام اکبر الہ آبادی کو دینا زیادتی ہو گی لیکن پچھلے تیس سالوں میں جو بڑے بڑے شعراءکرام گزرے ہیں انہیں سفید کوٹ والوں پر ایک ایسا شعر لکھ مارنا چاہئے تھا تاکہ قوم جان پاتی ڈاکٹروں کا شیطان سے کیا رشتہ ہے۔

پھر ملاں دو دھاری تلوار نے کہا کہ ڈاکٹروں سے متعلق میرا اپنا ایک شعر ہے لیکن آپ اسے کسی دوسرے شاعر کے نام کے ساتھ جوڑ کر عام کر دیں تاکہ میرے تعلقات متاثر نہ ہوں۔ ملاں کا ڈاکٹروں بارے شعر کچھ یوں تھا۔
ڈاکٹروں سے دشمنی اچھی نہیں فراز

موت سے پہلے یہ اکثر شیطان کے روپ میں ملا کرتے ہیں
ملاں کا یہ بھی کہنا تھا کہ فراز کا نام اس لئے ڈالا ہے کہ ان کے نام پر پہلے ہی بہت ٹمپرنگ ہو چکی ہے۔ پھر ملاں دو دھاری تلوار نے مجھے خوفزدہ کرنا شروع کیا اور ان کی یہی وہ صفت ہے کہ وہ معاملے کے دونوں پہلوﺅں پر بات کرتے ہیں اور کسی بھی مسلک کے حق اورمخالفت میں دلائل دینا ان پر ختم ہے اور اسی وجہ سے انہیں دو دھاری تلوار کے لقب سے نوازا گیا ہے۔

ملاں دو دھاری تلوار ملاں دو پیازا کی اولاد میں سے ہیں اور انہیں ہر مسلک میں بیک وقت احترام اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
بہرحال ملاں دو دھاری تلوار نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ کوئی شخص اگر کسی ایک وکیل یا وکیلوں کے گروہ پرلعن طعن کرے یا پھران پر ”تبرہ بازی“ کرے تو شیطان اس پرچار حملے کرتا ہے۔

(iشیطان اسے اکساتا ہے کہ وہ لڑائی جھگڑا کرے اور معاملہ کسی نہ کسی طرح تھانے سے ہوتا ہوا کچہری تک پہنچ جائے جہاں پر وکلاءاپنا حساب برابر کر کے اپنے مرشد شیطان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
(iiوکیلوں کو تنگ کرنے سے انسان کے دماغ میں برے برے خیالات آنا شروع ہو جاتے ہیں اور ان خیالات کی وجہ سے شیطان اس کی یا تو گھر میں لڑائی کروا دیتا ہے اور یا پھر پڑوسیوں سے ٹھکائی کروا دیتا ہے اور یہ معاملہ بھی یقینی طور پر وکیلوں اور عدالتوں تک پہنچ جاتا ہے۔

(iiiوکیلوں سے پنگا لینے کی صورت میں انسان کو کالے کالے سائے نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں اور بندہ گھر والوں پر یہ شک کرنے لگتا ہے اور معاملہ فیملی کورٹ میں چلا جاتا ہے جہاں وکیلوں کو بدلے کا سنہری موقع مل جاتا ہے۔
(ivملاں نے چوتھی اور آخری بات بتاتے ہوئے کہا کہ وکیلوں کو چھیڑنے کا سب سے زیادہ نقصان یہ ہے کہ انصاف کی دیوی تاحیات آپ کی گلی سے نہیں گزرتی بلکہ جو معاملہ بھی آپ کا عدالت میں جاتا ہے خواہ آپ کو سربازار غنڈوں نے پیٹا ہو لیکن انصاف کی دیوی غنڈوں کو سپورٹ کرتی ہے۔

ملاں نے بتایا کہ اسی طرح پانچ سائیڈ ایفیکٹ سفید کوٹ والوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی وجہ سے سامنے آتے ہیں وہ یہ ہیں۔
(iڈاکٹروں سے ٹکرانے والے کا دنوں میں خون سفید ہو جاتا ہے اور وہ اپنے پرائے اور انسانوں میں فرق کرنا بھول جاتا ہے۔ شیطان اس سے صرف وہ کام کرواتا ہے جس سے ڈاکٹر خوش ہوں۔

(ii ڈاکٹروں سے دشمنی کا انجام یہ ہوتا ہے کہ اگر ان کے گردے میں ایک پتھری ہو تو ڈاکٹر دوائی دے کر اسے فارغ کرنے کی بجائے دو پتھریاں اپنے سٹور میں سے ڈال کر اس کاآپریشن کر دیتے ہیں اور یہ ایسا شیطانی کام ہوتا ہے کہ بہت کم مریضوں کو توبہ کا موقع ملتا ہے۔

(iii جو ڈاکٹروں کے بارے میں برا خیال کرتا ہے وہ اگر سر درد کی بھی دوائی لینے ان کے پاس چلا جائے تو شیطان فوراً مخبری کر دیتا ہے کہ تمہارا دشمن ہے چنانچہ ڈاکٹر اس عارضی درد کو زائد المیعاد دوائی دے کر دائمی مرض میں بدل کر بندے کا دماغ ٹھکانے لگا دیتا ہے۔

(ivڈاکٹروں کو تنگ کرنے کی صورت میں سینے کے معمولی درد کو بہانہ بنا کر آپ کا بائی پاس بھی ہو سکتا ہے اور بندہ پوری دنیا کو بائی پاس کرتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملتا ہے۔ مزید ایسے مریض کو ڈاکٹر جان بچانے کی ادویات دینے کی بجائے جان گنوانے کی ادویات دیتے ہیں۔

(vاور ڈاکٹروں کا آخری سائیڈ ایفیکٹ یہ ہے کہ شیطان ان کے دشمن کو سردیوں کی سرد راتوں میں نیند آتے ہی یورپ کے نائٹ کلبوں میں چھوڑ آتا ہے اور جاتے ہوئے گیزر بھی بند کر جاتا ہے اور صبح سویرے ٹھنڈے پانی سے نہانا کوئی کم سزا نہیں ہے اسی طرح گرمیوں میں شیطان واپڈا والوں کے ساتھ مل کر وار کرتا ہے اور پسینہ ہی خشک نہیں ہونے دیتا۔

ملاں دو دھاری تلوار نے یہ ساری نصیحتیں میری محبت میں کی تھیں لیکن میں ”مفادعامہ“ کیلئے کالم کے ذریعے ہر شہری کےلئے اس نسخے کو عام کر رہا ہوں باقی آپ کی مرضی۔ بہتر یہی ہے کہ وکیلوں اور ڈاکٹروں سے ذرا بچ کے۔

(ادارے کا تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں)

Comments are closed.