پاکستان اورعقیدہ” ختم نبوت”

فرحت عباس شاہ

یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایک ظالم گروہ عقیدہ ختم نبوت ﷺ کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے بعد اب کھل کرسر زمین پاکستان پر اپنا کھیل کھیلنے کے ساتھ ساتھ دین اسلام کی بنیادی اساس پر بھی حملہ آور ہے اور اس کا سب سے بڑا ٹارگٹ نظریہ پاکستان کی چولیں اس طرح ہلانا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان قادیانی جمہوریہ پاکستان بن جائے۔ جس طرح یہ گروہ اللہ کی کتاب میں تحریف کا مرتکب ہو رہا ہے، اسی طرح ہو نہیں سکتا کہ یہ گروہ تمام مسلمان مکاتب فکر، اعلی بیورو کریسی،عدلیہ، مسلح افواج کے اہم عہدوں، سیاسی،مذہبی، کاروباری وتجارتی شعبہ اور میڈیا میں بھی نہ گھس چکا ہو۔ کیونکہ پاکستان میں کسی بھی شعبہ میں نہ تو کوئی چیک اینڈ بیلنس ہے نہ ہی ٹرانسپیرنسی۔اور نہ ہی من حیث القوم ہم عقیدہ ختم نبوت ﷺ جیسے حساس معاملے کی حساسیت پر کوئی توجہ دی ہے ماسوائے حصول روزگار، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے لئے مخصوص فارمز میں اقرار نامہ عقیدہ کے۔ اسی کم اہمیتی کا نتیجہ ہے کہ آج وہ لوگ اس قدر بااثر ہو چکے ہیں کہ جس طرح امریکہ میں کوئی الیکشن یا اہم قومی و بین الاقوامی نوعیت کا فیصلہ یہودی لابی کی مرضی کے خلاف نہیں ہوسکتا اسی طرح لگتا ہے پاکستان میں بھی بڑے فیصلے غیر محسوس انداز میں قادیانی اثر ورسوخ کے بغیر ممکن نہیں ۔

اس کا ثبوت حالیہ چند برسوں کے دوران اعلیٰ حکومتی سطح کے چند واقعات ہیں۔عین ممکن ہے کہ ملک خداداد میں گزشتہ تین دہائیوں سے جاری تفرقہ بازی،دہشتگردی اور سیاسی افراتفری کا جو کھیل جاری ہے اس کے پیچھے بھی یہی عوامل کار فرما رہے ہوں۔ اس لئے تمام کلمہ توحید پڑھنے والوں اور ختم نبوت ﷺکے متوالوں کو الرٹ ہونے، اور حالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے، اور مذکورہ تمام مکاتب، طبقات، ادارہ جات، شعبہ جات سے منسلک مسلمانوں کو اپنے اپنے اردگرد ایسے عناصر کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ لارنس آف عریبیہ جیسے گھس بیٹھیے ہماری نظریاتی اساس کو پارہ پارہ کر دیں اور ہمارے عقیدہ ختم نبوت ﷺکی بنیادیں ہلا کے رکھ دیں اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ چند باتیں خصوصی توجہ کی طالب ہیں۔

وہ یہ کہ جب سے اس گروہ کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے تب سے ملک میں فرقہ واریت کا زور پکڑنا، قادیانیت کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے والے مسلمانوں کا ایک دوسرے کواسطرح کافر کافر کہنا کہ یہ تمیز ہی باقی نہ رہے کہ کس کو کافر قراردے دیا گیا اور ابھی کتنے اس پروسس سے گزرنا باقی ہیں، یعنی لفظ کفر کو ہی اس طرح بے وقعت کر دینا کہ اس حمام میں سب ہی ننگے نظر آنے لگ جائیں، ملک میں حب الوطنی، دینی اقدار سے مزین تعلیمی نظام کی سیکولر اور کاروباری رنگ میں تبدیلی، غیر ملکی ایجنسیوں (سی آئی اے, بلیک واٹر، را وغیرہ کی آ زادانہ سرگرمیاں) ، غیر ملکی شہریوں کی ملک بھر میں بھرمار اور بلا روک ٹوک پاکستانی شہریوں جیسے حقوق کااستعمال، اصولی سیاست کا جھوٹ، فریب، کاروبار اور تجارت کے رنگ میں ڈھلنا، تمام شعبہ ہائے زندگی کو منظم منصوبے کے تحت کرپشن، اقربا پروری، بدانتظامی اور ناانصافیکی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلنا، عدلیہ، پولیس اور انتظامیہ پر عوامی اعتماد کا خاتمہ۔ مختلف نسل مکاتیب فکر کے اپنے اندر اختلافات کو ہوا دیکر مزید تقسیم در تقسیم کی پشت پناہی اور سر پرستی کہ دین ایک فٹبال بن کر رہ گیا وغیرہ وغیرہ۔

ان تمام خرابیوں کو پروان چڑھانے کے بعد ایسے ہی عناصر ہاتھ جھاڑ کر خاموش بیٹھ گئے ہوتے تو شاید قوم کو جان کی امان ملتی لیکن باقی بچ گئے ملکی سلامتی کے ادارے، تو اگر ہم دعویٰ کریں کہ ان سازشی عناصر سے وہ محفوظ ہیں یا رہ سکیں گے دعا ہے کہ اللہ کرے کہ ہماری یہ خوش فہمی خام خیالی نہ ہو اوراوپر بیان کردہ پہاڑ جتنی تبدیلیاں جو اس ملک میں ہو چکی ہیں ان اداروں پر اثر انداز نہ ہوئی ہوں۔ اور ہماری نسلوں کو عقیدہ ختم نبوت ﷺکو صرف دعویٰ تک محدود ہونے اور ڈوبنے سے بچانے کے لئے کوئی تو ایسا تنکا باقی رہ جائے جو ان کا سہارا بن سکے ورنہ کسر تو باقی کوئی رہ نہیں گئی۔ اگر یہ ادارے پاکستان کو ایک سیکولر، اسلامی اور فلاحی ریاست کی حیثیت سے برقرار رکھنے اور عقیدہ ختم نبوت ﷺ کی بنیادی اساس کو بچانا چاہتے ہیں تو اس کے خلاف محلاتی سازشوں کے آگے بند باندھنے کے لئے تمام مسلمان مکاتب فکر کے جید علماء کرام کو ایک ٹیبل پر بٹھائیں اور ایک حتمی فیصلہ کریں کہ اس ملک میں کون کون مسلمان،کون اقلیت اور کون غدار دین و وطن ہے۔

پھر سب اس پر بھی اتفاق کر کے اٹھیں کہ آئندہ کوئی بھی اسلامی مکتبہ فکر جو اسلام کے بنیادی عقائد ہیں ان پر کاربند کسی دوسرے مکتبہ فکر کو صرف فروعی، قیاسی اور اجتحادی اختلاف رائے پر غیر مسلم اور کافر نہیں گردانے گا اور جو بھی ایسا کرے گا خود اس کو قانونی کارروائی کے ساتھ ساتھ دین اسلام سے اخراج کا مستحق ٹھہرایا جائے گا، اسی طرح جو بھی کسی ایک مکتبہ فکر کے اندر بیٹھ کر کسی دوسرے مسلمان مکتب کو صرف اس لئے نشانہ بنائے گا کہ ان فرقوں کے درمیان اختلافات کو بڑھایا جائے تو اسے خود اسی مکتبہ فکر کے خلاف سازش قرار دیکر اسے قادیانیت اور یہودیت کا ایجنٹ تصور کیا جائے گا۔ اسی طرح اس ملک میں ایک منظم انداز میں ہر مکتبہ فکر مثلاً بریلوی اہلسنت، دیوبندی اہلسنت، شیعہ اثناء عشری کی صفوں کے اندر بھی مزید تقسیم در تقسیم کے تباہ کن ایجنڈے کو روکنا ہوگا،ہو سکتا ہے کہ اس طرح ہم ملک عزیز تر کو قادیان بننے سے بچانے اور قوم کا شیرازہ بکھرنے سے بچانے میں کامیاب ہو جائیں۔

Comments are closed.