ٹیکسز چوری، صرف سُپر ٹیکس ادا نہ ہونے سے 167.9؍ ارب روپے کا نقصان ہوا،رپورٹ

فوٹو : فائل

اسلام آباد : آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی مالی سال 2024-25ء کی تازہ ترین رپورٹ میں بڑے پیمانے پر ٹیکسز چوری کرنے کا انکشاف ہوا ہے، اربوں روپے ٹیکسز چوری، صرف سُپر ٹیکس ادا نہ ہونے سے 167.9؍ ارب روپے کا نقصان ہوا،رپورٹ کے مطابق  ہر سال قومی خزانے کو سیکڑوں ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

ایف بی آر کے 392؍ صفحات پر مشتمل آڈٹ میں مفصل انداز سے بتایا گیا ہے کہ کس طرح ٹیکس چور پیسہ لوٹ رہے ہیں اور ایف بی آر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے.

اے جی کی رپورٹ کے مطابق ہزاروں ایسے کیسز کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں ٹیکس دہندگان بڑے پیمانے پر آمدنی چھپانے، جعلی کلیم، ریٹرن جمع نہ کرانے، ٹیکس کریڈٹ کے غلط استعمال اور آمدنی چھپانے میں ملوث ہیں۔

گزشتہ برسوں کی رپورٹس میں بھی انہی بے ضابطگیوں کی مسلسل نشاندہی کی گئی لیکن اس کے باوجود کوئی اقدامات نہیں کیے گئے جسے آڈیٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں ’’انتہائی تشویش ناک‘‘ قرار دیا ہے، امیر افراد کی جانب سے سُپر ٹیکس کی بڑے پیمانے پر چوری سب سے زیادہ باعثِ تشویش ہے۔

رپورٹ کے مطابق، 1026؍ ٹیکس دہندگان نے سُپر ٹیکس ادا نہ ہونے سے قومی خزانے کو 167.9؍ ارب روپے کا نقصان ہوا، آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق ایف بی آر کے پاس ادائیگی نافذ کرنے کا قانونی اختیار اور طریقہ کار موجود ہونے کے باوجود بروقت کارروائی نہیں کی گئی.

صرف 4؍ کروڑ 80؍ لاکھ روپے وصول ہوپائے جو مجموعی رقم کا محض 0.02؍ فیصد بنتا ہے، اسی طرح، 1084؍ ٹیکس دہندگان نے ناقابل قبول کاروباری اخراجات جیسے لیز فنانس چارجز اور ایسے اخراجات شامل کیے جن پر ودہولڈنگ ٹیکس منہا نہیں ہوا.

اس حوالے سے نجی ٹی وی جیو نیوز کی رپورٹ میں اے جی رپورٹ کا حوالہ دے کر بتایا گیا ہے کہ  انکم ٹیکس آرڈیننس کی دفعہ 21؍ کی خلاف ورزی ہے، اس سے 149.5؍ ارب روپے کم جمع کیے جا سکے۔

رپورٹ کے مطابق، اگرچہ کارروائی کا دعویٰ کیا گیا لیکن واضح ریکوری نہیں ہوئی اور زیادہ تر کیسز تاحال زیر التوا ہیں، رپورٹ میں مزید 45.3؍ ارب روپے کے غیر ادا شدہ ودہولڈنگ ٹیکس کی نشاندہی کی گئی ہے، 1344؍ کیسز میں ایجنٹس نے سپلائرز اور کنٹریکٹرز کو ادائیگیوں پر ٹیکس منہا نہیں کیا یا پھر ٹیکس کی کٹوتی ہی نہیں ہوئی.

اس کے باوجود، ایف بی آر نے ان ایجنٹس کیخلاف ذاتی ذمہ داری کے قانونی اختیارات استعمال نہیں کیے، کارروائیاں تاخیر کا شکار رہیں یا پھر مکمل ہی نہیں کی گئیں، صرف 24؍ لاکھ روپے کی وصولی ممکن ہو پائی۔

آڈیٹر جنرل نے خبردار کیا کہ جب تک ’’سینکرونائزڈ وتھ ہولڈنگ ایڈمنسٹریشن اینڈ پیمنٹ سسٹم‘‘ (SWAPS) پر فوری عمل نہیں کیا جاتا اور اس وقت تک نظام میں اربوں روپے کی لیکیج کا سلسلہ جاری رہے گا۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بہت سے ٹیکس دہندگان نے اپنی فروخت کم ظاہر کر کے یا خریداری بڑھا کر آمدنی چھپائی جب کہ سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس ریٹرن میں فرق پایا گیا، ایسے 1181؍ کیسز میں 54.2؍ ارب روپے کا انکم ٹیکس ادا نہیں کیا گیا.

اسی طرح، 992؍ سیلز ٹیکس رجسٹرڈ افراد نے فروخت چھپائی، بجلی کے استعمال کی بنیاد پر پیداوار کم ظاہر کی، یا اختتامی اسٹاک کا حساب نہیں دیا، جس سے 36؍ ارب روپے کا سیلز ٹیکس چوری ہوا، دونوں صورتوں میں کوئی موثر کارروائی نہیں کی گئی۔

رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ جعلی یا فلائنگ انوائسز کے ذریعے سیلز ٹیکس ریفنڈ یا ان پٹ ایڈجسٹمنٹ حاصل کی گئی، 375؍ کیسز میں ٹیکس دہندگان نے بلیک لسٹ یا معطل شدہ کمپنیوں کی انوائسز پر کریڈٹ کلیم کیا جو سیلز ٹیکس ایکٹ کی صریح خلاف ورزی ہے۔

ان جعلی کلیمز سے 123.5؍ ارب روپے کا نقصان ہوا، زیادہ تر کیسز تاحال انکوائری یا ایڈجیوڈیکیشن (فیصلہ سنائے جانے) کے مراحل میں ہیں، کچھ پر تو اب تک محکمانہ ردعمل بھی نہیں آیا۔

رپورٹ کے مطابق، 14؍ ہزار 697؍ رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان نے این ٹی این ہونے کے باوجود ریٹرن فائل نہیں کیا، یہ ایسی خلاف ورزی ہے جس پر دفعہ 182؍ کے تحت از خود جرمانہ عائد ہونا چاہئے تھا لیکن 26.6؍ ارب روپے کے جرمانے عائد کیے گئے نہ وصول کیے گئے.

اس کیٹیگری میں ایف بی آر نے صرف 0.05؍ ملین روپے وصولی کیے، اس سے ایف بی آر کی جانب سے قانون کے نفاذ میں ناکامی ظاہر ہوتی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کچھ ایسے کیسز بھی ہیں جن میں ٹیکس واجب الادا تھا لیکن وصول نہیں کیا گیا.

تقریباً 1571؍ کیسز میں 62.3؍ ارب روپے وصول نہیں کیے گئے، اگرچہ کچھ کیسز میں قانونی کارروائی شروع کی گئی لیکن کوئی نمایاں وصولی نہیں کی گئی۔

’’دیگر ذرائع‘‘ کی کیٹگری میں شمار ہونے والے ذرائع پر ٹیکس عائد نہ کیے جانے کی وجہ سے بھی 23.3؍ ارب روپے نقصان ہوا، ان ذرائع میں مختلف اقسام کی آمدنی شامل ہیں، 1764؍ کیسز میں ایف بی آر نے جائزہ لیا نہ ٹیکس وصول کیا۔ 

آڈیٹر جنرل کی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ تقریباً تمام بڑے مسائل 2019 سے 2024تک کی آڈٹ رپورٹس میں متعدد مرتبہ اٹھائے گئے لیکن وہی بے ضابطگیاں دہرائی جا رہی ہیں اور کارروائی نہ کرنے پر فیلڈ افسران سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ٹیکس وصولیوں کے یہ نقصانات ایسے ہیں جو اگر ریکور کیا جاتا تو یہ رقم اسکولوں، اسپتالوں، عوامی تحفظ یا انفرااسٹرکچر پر خرچ ہو سکتی تھی، بڑے پیمانے پر ناکامیوں کو روکنے کیلئے رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ واجب الادا ٹیکس فوراً وصول کیا جائے.

یہ بھی کہ قانونی کارروائی اور فیصلے بروقت کیے جائیں، آزادانہ نگرانی کی جائے، داخلی و ڈیسک آڈٹ کا نظام مضبوط کیا جائے اور رسک بیسڈ اپروچ اختیار کی جائے، صوبائی اور وفاقی ڈیٹا بیس (جیسے زمین، ایکسائز، ریونیو) کو ضم کیا جائے.

کہا گیا کہ آئی ٹی کنٹرولز کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ بلیک لسٹ شدہ اداروں سے منسلک جعلی ریفنڈ کلیمز کو روک سکیں۔ آڈٹ رپورٹ نے صاف الفاظ میں خبردار کیا ہے کہ ایک ہی بے ضابطگی بار بار دہرائی جائے تو یہ انتہائی تشویشناک بات ہے

Comments are closed.