وائٹ ہاوس کامکین پاکستان کو کس نظرسے دیکھے گا؟

ہارون رشید طور

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے عوام، سیاسی اور حکومتی حلقے بھی امریکی صدارتی انتخاب کے حتمی نتائج کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔صدارتی انتخاب کے نتیجے میں امریکہ کے نئے سیاسی دور میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بڑی تبدیلی تو واقع نہیں ہو گی لیکن اس کے دنیا اور بالخصوص ایشیائی خطے میں دورس اثرات مرتب ہوں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ آنے سے خطے میں افغانستان اور چین کے حوالے سے ان کی جاری پالیسیاں آگے بڑھیں گی۔ البتہ جو بائیڈن کے صدر منتخب ہونے پر چین اور ایران سے متعلق واشنگٹن کی سخت پالیسی میں تبدیلیاں واقع ہو سکتی ہیں۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا امریکی انتخابات کے حوالے سے ماننا ہے کہ اسلام آباد امریکہ سے بھارت کے تناظر میں مساوی رویہ دیکھنا چاہتا ہے اور تنازع کشمیر کے معاملے پر واشنگٹن سے دونوں فریق ممالک کے ساتھ اسے یکساں پالیسی اپنائے جانے کی توقع ہے.

جرمن جریدے کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان کی رائے تھی کہ جو بائیڈن رائے عامہ میں مقبول نظر آہے ہیں تاہم ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی خاصیت ہے کہ وہ روایتی سیاست دان نہیں ہیں اور کچھ بھی کر سکتے ہیں.

پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کا خیال ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں ٹرمپ یا بائیڈن جو بھی وائٹ ہاؤس میں براجمان ہو گا پاک امریکہ تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہے گا۔ البتہ اسلام آباد اپنی بہتر خارجہ پالیسی سے خطے کے بدلتے حالات کو اپنے حق میں مفید بنا سکتا ہے.

جو بائیڈن کے صدر منتخب ہونے کے کچھ امکانات زیادہ ہیں۔ ٹرمپ یا بائیڈن جو بھی منتخب ہوں اس کے دنیا کے ساتھ ساتھ جنوب ایشیائی خطے پر دورس اثرات مرتب ہوں گے کیوں کہ امریکہ کے اس خطے سے مفادات وابستہ ہیں،انتخاب میں جو بھی کامیاب ہو پاکستان امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔

پاک امریکہ تعلقات میں جو دوریاں اوباما دور میں پیدا ہوئیں تھیں وہ حالیہ عرصے میں دور ہو چکی ہیں،ٹرمپ کے دوبارہ آنے کی صورت وہ اپنی افغان امن پالیسی آگے لے کر چلیں گے جس میں پاکستان کا کلیدی کردار ہے،چین کے ساتھ ری پبلکن صدر ایک نئی سرد جنگ کی بنیاد رکھ سکتے ہیں جو امریکہ کو بھارت کے مزید قریب لے جائے گی۔

ڈیموکریٹک امیدوار کے جیتنے کی صورت میں جو بائیڈن ایران سے مذاکرات کی بحالی اور چین کے ساتھ جنگی ماحول میں کمی لائیں گے، پاکستانی عوام اور سیاسی قیادت چاہتی ہے کہ جو بھی منتخب ہو اسلام آباد کے لیے نرم گوشہ رکھے اور پاکستان کے تجارتی و اسٹرٹیجک مفادات کو ترجیح دے.

Comments are closed.