عمران خان اور عوام کے کر نے کے کام

فیاض ولانہ

قارئین محترم !
پاکستان تاریخ کے اس اہم موڑ پر ہے کہ
اس کی عوام
نجانے کیوں
ایک بے مثل سحر کا شکار ہو چکی ہے
وہ شام سے پہلے
اپنے ستر سالہ مسائل کا حل نکال لینا چاہتی ہے
دوسری طرف
عمران خان ہے
جو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہی گاڑی کو یوں سرپٹ دوڑانا چاہتا ہے
کہ اقوام عالم کی ریس میں
پاکستان پلک جھپکتے میں
اول پوزیشن پر آ جائے
لیکن
عمران اور عوام
یہ بات دونوں بھول رہے ہیں کہ
ان کے علاوہ پاکستان میں ایک
تیسرا طبقہ بھی ہے
جسے ان دونوں کی ناکامی کا شدت سے انتظار ہے
ان کے بعض گماشتے
اور چند روایتی‘ سہل پسند‘ حرام خور‘ بیورو کریسی کے کل پرزے
زیر لب منمنا رہے ہیں کہ
سوہنیا
ہک واری وزیراعظم سیکرٹریٹ تے پہنچ
تیریاں ساریاں سپیڈاں نوں بریکاں لانڑاں ساڈا کم اے
😜😜
ایسے میں
سوال یہ ہے کہ
اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھے خوابوں کی تعبیر پانے کیلئے
عوام اور عمران
کو کرنا کیا ہے ؟
۔
کچھ بھی نہیں
محض یہ دیکھنا ہے کہ
آج تک کی کامیابیاں کیسے سمیٹیں؟
پہلے عمران کو اپنے آپ سے پوچھنا ہو گا کہ
شوکت خانم کیسے بنا ؟
عوام کو اپیل کی اور عوام نے تعاون کیا
نمل کالج کیسے بنا ؟
عوام سے اپیل کی اور عوام نے تعاون کیا
۔
عوام کو بھی اپنے آپ سے سوال پوچھنا ہو گا کہ
انہوں نے 25 جولائی کے انتخابات میں عمران کو سب سے زیادہ سیٹیں کیسے لے کر دیں ؟
تمام تر منفی پروپیگنڈے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے
عمران کی بات ماننے اور اسے ووٹ دینے سے
مطلب رکھتے ہوئے
اب بھی
عوام اور عمران دونوں کو اپنے آپ پر یقین کامل قائم رکھنا ہو گا
ورنہ ان کی کھلی آنکھوں دیکھے خوابوں کے دشمن
گھر کے اندر ہی موجود ہیں
اور وہ انہیں قاعدے‘ قانون‘ پارلیمنٹ‘ پروٹوکول‘ میٹنگز‘ سمری‘ کمیٹی‘ رپورٹ‘ اور انٹرنیشنل کمٹمنٹس
کے ایسے گھن چکروں میں الجھائیں گے کہ تین چار ماہ بعد
عوام اور عمران
دونوں ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوں گے کہ
ہمارے ساتھ ہوا کیا ہے؟
کہاں گیا جذبہ؟
اور کیا ہوا
تعمیر پاکستان کا سفر؟
۔
آج پوری قوم کا جذبہ 47ء کے بعد پہلی بار جواں نظر آ رہا ہے۔ اس میں عمران سے زیادہ حصہ ان حکمرانوں کا ہے جو گزشتہ پینتیس سے چالیس سال باریاں بدل بدل کر ہمیں اس نہج پر لے آئے کہ
اب پاکستان کے عوام نے اس شخص کو اپنا لیڈر چن لیا ہے
جس پر یہودی ایجنٹ‘ طالبان خان‘ پاگل خان‘ یو ٹرن خان‘ کنجوس خان اور وردی والوں کا نمائندہ ہونے کے علاوہ گل اے لائی اور ری حام خان کے تعاون سے گھٹیا سے گھٹیا ترین الزام کا سامنا کرنا پڑا۔
عوام کو ایک پیج پر لانے کا کریڈٹ ان شریفوں‘ زرداریوں‘ اچکزئیوں اور مولانوں کو نہ دینا زیادتی ہے۔
یقین مانیں
تعمیر نو کی تاریخ ان اصحاب کے ذکر کے بغیر ادھوری رہے گی۔
اب یہ عمران کی طلسماتی شخصیت کا سحر ہے کہ بھارت‘ ترکی‘ چین‘ قطر‘ سعودی عرب‘ ملائشیا‘ انڈونیشیا‘ برطانیہ‘ کینیڈا‘ نائجیریا اور ایتھوپیا تک کی حکومتیں اور انکے زعماء پاکستان کے ساتھ دست تعاون بڑھانے کیلئے بے تاب نظر آتے ہیں۔
اب ایسی صورت میں
جب اندر اور باہر جذبہ ہی جذبہ نظر آتا ہے تو
عمران اور عوام کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ انہوں نے روایتی انداز میں بیورو کریسی کی کمیٹیوں‘ ذیلی کمیٹیوں اور ان کی سمریوں کے ذریعے تعمیر نو کا سفر شروع کرنا ہے
یا غیر روایتی انداز میں
جوش اور جذبے کو عمل کے سانچے میں ڈھال کر فوری نتائج حاصل کرنے ہیں
مثلاً
عمران خان
اپنے حلف اٹھانے سے
دو روز پہلے ہی کہہ دے کہ دنیا بھر سے مہمان پاکستان آ رہے ہیں
دنیا بھر کے میڈیا کی نظریں ہم پر ہیں
فلاں دن پورا پاکستان باہر نکلے اور اپنے گھر‘ محلے‘ گائوں اور شہر کی صفائی کر دی جائے
عمران خود بھی جھاڑو لے کر بنی گالہ اور اسلام آباد کی سڑکوں پر اپنے کارکنوں کے ہمراہ نکلے اور پاکستان بھر سے اپنے جیتنے
حتیٰ کہ ہارنے والے امیدواروں سے بھی کہے کہ آپ سب بالخصوص
اپنی اپنی ٹیم کے ہمراہ عوام کے ساتھ سڑکوں پر نکلیں۔
اپنے گھر
اپنے پاکستان کو صاف ستھرا کر دیں۔

عمران پاکستان کے تمام بڑے کاروباری گروپس مثلاً سہگل گروپ‘ کوہ نور گروپ‘ ہاشو گروپ‘ چکوال گروپ‘ سیف اللہ گروپ‘ منشاء گروپ‘ ملک ریاض گروپ‘ حبیب رفیق وغیرہ سے اپیل کرے کہ وہ اس مہم کی سرپرستی کریں اور عوام کو صفائی کیلئے دستیاب وسائل عطیہ کریں۔ جن میں کالے بیگ‘ جھاڑو‘ سفیدی وغیرہ کیلئے چونا اور برشیاں اور ڈمپنگ کیلئے ٹرک اور ٹرالیاں وغیرہ فراہم کرنا شامل ہو۔
عمران پاکستان کے تمام بڑے ٹیلی ویژن چینلز سے اپیل کرے کہ وہ پی ایس ایل کی طرح تمام بڑے شہروں کی صفائی کی سرپرستی کریں اور خصوصی کوریج کی ذمہ داری‘ باہمی مشاورت سے بانٹ لیں تا کہ اس مہم میں حصہ لینے والوں کی بھرپور کوریج کی جائے۔
اس ساری پریکٹس کا ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ
باہر سے آنے والے مہمانوں کو اپنا صاف ستھرا گھر (پاکستان) بھلا لگے گا
دوسرا اور سب سے اہم فائدہ قوم کا جذبہ جواں رکھنے کے
ساتھ ساتھ اسے راہ عمل کا یقین ہو جائے گا کہ تعمیر نو کے اس سفر میں ہم میں سے ہر ایک نے عملی طور پر حصہ ڈالنا ہے۔
ہمیں بیورو کریسی کی میٹنگز در میٹنگز اور کمیٹی در کمیٹی کی رپورٹس کا انتظار نہیں کرنا۔
یوں بیوروکریسی میں موجود زکوٹا جنوں کو بھی معلوم پڑ جائے گا کہ یہ عمران اور عوام
پاگل ہیں
خود ہاتھ سے کام کرنا جانتے ہیں
اب ان کے سامنے بہانے بازی نہیں چلے گی
جس روز عمران حلف اٹھائے اسی روز دنیا بھر میں موجود کم و بیش ایک کروڑ پاکستانیوں سے اپیل کرے کہ وہ قانونی ذرائع سے پاکستان پیسے بھیجیں۔
بلاشبہ دنیا بھر میں بسنے والے اوورسیز پاکستانی اس وقت عمران کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر وطن عزیز کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
اور پھر روزانہ کی بنیاد پر ایک ہفتے تک مسلسل غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی مقدار میں اضافے کی رپورٹ میڈیا کو فراہم کی جائے۔
جذبے جواں رکھنے
اور تبدیلی وہ جو نظر آئے کے فارمولے پر کاربند رہنے کیلئے
عمران کو حلف اٹھانے کے بعد
چینی‘ ترکی اور قطر سمیت دنیا بھر سے آنے والے سرمایہ کاروں سے اپیل کرنی چاہئے کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیں کہ اپنے چھوٹے بڑے ہر منصوبے میں کم از کم ایک پاکستانی نژاد پارٹنر حصہ داررکھیں اور ایگزیکٹو سے لے کر عام مزدور تک ملازمتوں کا کوٹہ چالیس ساٹھ کے تناسب سے پاکستانی شہریوں کو ضرور دیں۔
اسی دوران پارلیمنٹ سے بھی کہہ دیا جائے کہ وہ اس سلسلے میں ضروری قانون سازی کا عمل شروع کر دیں۔
ایک اور اہم بات جو قوم کو جوڑے رکھنے کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ احتساب کے عمل سے عمران کو پہلے روز سے ہی خود کو الگ کر دینا ہو گا اور اس کیلئے عمران کو کوئی خصوصی اہتمام کرنے کی ضرورت نہیں۔
جیسا کہ پانچ سال قبل اس نے آئی جی کے پی کے کو بلا کر کہہ دیا تھا کہ آج کے بعد پی ٹی آئی کا کوئی ایم پی اے یا ایم این اے آپ کو اپنی مرضی کا ایس ایچ او یا ڈی ایس پی لگوانے کیلئے فون نہیں کرے گا
بعین اسی طرح
عمران کو پہلے روز سے یہ اعلان کر دینا چاہئے کہ
وفاق کے زیر انتظام اداروں ایف آئی اے‘ وفاقی پولیس اور نیب کے ساتھ ساتھ پنجاب اور کے پی کے پولیس کے کام میں حکومتی مداخلت صفر کر دی گئی ہے۔ ان اداروں کے سربراہ کو ان کے کسی ایم این اے‘ ایم پی اے وزیر یا مشیر کا کبھی کوئی فون نہیں جائے گا۔
اور ایسا کرنے کی درخواست یا تجویز بلوچستان اور سندھ کی حکومتوں کو بھی اعلانیہ پیش کر دی جائے کہ وہ بھی اپنا لائحہ عمل واضح کر دیں۔
اس اعلان کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ
عمران کے سیاسی مخالفین میاں نواز شریف‘ شہباز شریف اور آصف علی زرداری وغیرہ اور ان کے فالوورز کو بھی تبدیلی کا یقین ہو جائے گا کہ اب اگر کسی کا احتساب ہونا ہے جو کہ بہر صورت ہونا تو اس سے عمران اور اس کی پارٹی کا کچھ لینا دینا نہیں۔
عمران کے حلف اٹھانے سے پہلے
وزارت خارجہ سے سمری منگوا لی جائے کہ کس ملک کے سربراہ کا مبارکباد کا فون آئے تو عمران نے بطور وزیراعظم ان سے تعمیر نو کے اس سفر میں کیسے تعاون کی توقع رکھنی ہے۔
مثلاً کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو مبارکبادکیلئے عمران کو فون کریں تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ابھی حال ہی میں کینیڈا نے بھارت‘ چین‘ فلپائن اور ویت نام کے طلباء کیلئے ایس ڈی ایس (سٹوڈنٹس ڈائریکٹ سٹریم) کے نام سے خصوصی ویزہ پروگرام شروع کیا جس میں ان ممالک کے طلباء دی گئی بنیادی شرائط پوری کر دیں تو انہیں دو سے چھ ہفتے میں ویزہ فراہم کر دیا جاتا ہے۔ چار ممالک کی اس فہرست میں پاکستان کا نام ڈالے جانے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔
ایسے ہی سعودی عرب‘ قطر‘ بحرین‘ کویت اور متحدہ عرب امارات سے ورک ویزوں کے حصول میں رکاوٹوں کے نکات فوری طور پر اٹھا کر فوری نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں کہ اس وقت ان تمام ممالک کے سربراہان عمران کی قیادت میں تعمیر نو کے اس سفر میں اپنا اپنا حصہ ڈالنے کے موڈ میں ہیں۔
ہم نے یہ مواقع نشستند گفتند اور برخاستند میں ضائع نہیں کرنے کہ ہماری بیورو کریسی تو ایک مدت سے اس کی عادی ہے کہ ان کی تنخواہیں ترقیاں اور غیر ملکی دورے بلا رکاوٹ جاری و ساری رہے ہیں انہیں عام آدمی کے دکھ درد کا احساس کہاں۔
.
اٹھارہ اگست کا دن ہر سال قومی شجر کاری ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے
مگر صحیح طور معلوم نہیں ہو سکا کہ کیسے منایا جاتا ہے
اب کی بار عمران خان پاکستان بھر کے عوام سے اپیل کرے کہ اس روز ہر شخص کم از کم دو پودے ضرور لگائے جو شخص نرسری سے پودے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا وہ شجردار اور پھل دار پودوں کے بیج بوئے –
اس حوالے سے روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا سے بھر پور مدد لی جائے
.

المختصر
عام آدمی کو خود عمران کا دست بازو بننا ہو گا
اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی منتخب کردہ حکومت کو ایسے ہی جوابدہ بنانا ہو گا جیسے اداکارہ شبنم کے گھر ڈکیتی کیس میں سزا یافتہ فاروق بندیال کے گلے میں سے عمران کا اپنا ڈالا ہوا پارٹی پٹہ عوام نے سوشل میڈیائی دبائو پر اتروا پھینکا۔
پاکستان بھر کے عوام نے
دنیا کو اب یہ بھی ثابت کرانا ہے کہ
تیز ترین انٹرنیٹ سروس رکھنے کا دعوی’ کرنے والی پاکستانی قوم کو
اس کی مدد سے
تیز ترین مثبت نتائج حاصل کرنا بھی آتا ہے
مثلاً”
آپ میری اس تحریر کو
بلا جھجھک اپنے نام سے آگے سے آگے شئیر کر سکتے ہیں
کہ
اب ہمیں
نام نہیں کام چاہئیے
صرف کام
۔

Comments are closed.