خواتین کا عالمی دن

رابعہ عبداللہ

خواتین کا عالمی دن منانے کا مقصد عالمی سطح پر خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنا اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ اگرچہ پہلے خواتین کے عالمی دن کے لئے مختلف ایام تھے مگر اب باقاعدہ طور پر آٹھ مارچ کو ہی منایا جاتا ہے۔ اب یورپ سمیت دنیا بھر عورتوں کو حقوق دینے کے دعویدار ہیں مگر اسلامی تاریخی کا مطالعہ کیا جائے تو ان کے حقوق کا تحفظ تقریبا ساڑھے چودہ سو سال پہلے کیا۔

اسلام نے عورت کو وہ چاہے جس روپ میں اس روپ میں مقام و مرتبہ عطا فرمایا ِ ماں ہے تو جنت اس کے قدموں کے نیچے ہونے کی بشارت دی۔ بیٹی ہے تو اس کا اپنا مقام اور بیوی ہے تو الگ مقام رکھا۔ جس دور میں عورت کو نفرت کی علامت سمجھا جاتا تھا اور بیٹی کی پیدائش پر افسوس کا اظہار کیا جاتا تھا بلکہ بیٹوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا۔

ایسے دور میں اسلام کی آفاقی تعلیمات عورت کے عزت ومقام کا پرچار کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں بلکہ اس کے ساتھ عورت کے حقوق کاتحظ بھی کرتی نظر آتی ہیں۔اس دور میں جب عورت کو حقارت کی نظر میں دیکھا جاتا تھا آپﷺنے بیٹوں کی پرورش اور تربیت اور ان کی شادی کی ذمہ داری نبھانے پر بھی آخرت میں انعام و اکرام کی خوشخبری دی۔

فرمایا ”جس شخص نے تین لڑکیوں کی پرورش کی پھر ان کو ادب سکھایا اور ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے“ (ابوداؤد) ا قرآن وحدیث میں کثیر تعداد میں ایسے احکامات موجود ہیں جس سے اسلام میں عورت کے مقام، اہمیت اور اس کے حقوق کا تعین ہوتا ہے۔جبکہ مغربی دنیا میں جو کچھ عورت کو ملا ہے بظاہر وہ حیرت انگیز ہے.

فمینزم کی تحریک کی دین بہت کچھ ہے۔ جو اصلی سوال یہاں پر پیش کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ اس وقت جہاں پر مغربی عورت کھڑی ہے، کیا اس انفرادی اور اجتماعی آزادی کے بعد اس کی شان اور انسانی تکریم کو تحفظ ملا ہے؟ بہ الفاظ دیگر کیا آج کی مغربی عورت کو سکون ملا ہے یا یہ کہ اضطراب اور بے آرامی کی حالت میں ہے؟

اس کے جواب میں کہنا چاہئیے کہ: مغربی دنیا میں ایک تحریک کے بعد عورتوں کی آزادی کا نتیجہ: حق رائے، بلاوجہ طلاق حاصل کرنا ، مالی آزادی، جنسی آزادی، سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی امور میں وسیع پیمانے پر شرکت، ازدواج کی عمر کا بڑھنا، مجرد زندگی بسر کرنے میں افزائش، خاندان کی نابودی، طلاق میں افزائش، زن و مرد میں لڑائی جھگڑے کا پیدا ہونا، نسوانیت کا تباہی سے دوچار ہونا، عورتوں میں شناخت کا بحران، ، ہم جنس پرستی کا رواج وغیرہ ہے۔

جس چیز کی اہمیت ہے، وہ عورت کے معاشرہ میں سرگرمیوں کے اثرات ہیں۔ جو عورتوں کی خصوصی صلاحیتوں ، خاص کر جسمانی اور روحانی قابلیتوں اور عورتوں کی انسانی تکریم کے پیش نظر ہو سکتے ہیں،لیکن فمینزم کے مختلف گروہوں نے عورتوں کے اس اثر کو عورت کے جسمانی ظہور تک محدود کر کے رکھ دیا ہے.

اس اعتبار سے، عورت ، مغربی تمدن کے لحاظ سے انفرادی آزادی حاصل کرنے کے باوجود صرف ظاہری جہت سے قابل توجہ قرار پائی ہے، یہ وہ نظریہ ہے جس نے آج کی مغربی عورت کو بے چارہ اور بے بس کر کے رکھ دیا ہے۔
(رائٹر رابعہ عبداللہ ہولی ہیلپ آرگنائزیشن کی ایڈمینسٹیٹز اور ہولی ہیلپ سکول راولپنڈی کی پرنسپل ہیں)

Comments are closed.