تخیلاتی محلات

محبوب الرحمان تنولی

اب بھی وقت ہے تسلیم کرلو۔۔ آپ مسند اقتدار کے اہل نہیں تھے۔۔آپ نے جو خلاء میں تخیلاتی محلات بنائے تھے وہ کب کے دھواں بن کر اڑ چکے۔۔ کئی زمیں بوس ہو رہے ہیں۔ آپ نے کنٹینر پر کھڑے ہو کرسابق حکومت کی جن خامیوں پر تقاریر کی تھیں۔۔ یکے بعد دیگرے وہ ساری کی ساری تبدیلی سرکار میں بھی سرایت کر چکی ہیں۔۔ بلکہ اس سے بھی بہت آگے جا چکے ہیں۔۔ عوام پر آپ نے بار بار گیس اور پٹرول بم گرائے۔ ۔بجلی کے جھٹکے دیئے۔۔ مہنگائی اتنی کہ لوگ فاقوں تک پہنچ گئے۔۔ خودکشیاں کرنے لگے ہیں۔

کپتان جی چاشنی صرف آپ کی باتوں کی حد تک تھی۔۔ آپ کی طرح آپ کے وزیر ، مشیر بھی بہت بے رحم ہیں۔۔ جب سے اقتدار کی غلام گردشوں میں پہنچے ہیں تسلسل سے عوام کو برداشت برداشت کی صدائیں لگا رہے ہیں۔۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کہتے ہیں چھ مہینے اور مشکل ہیں۔۔ عبدالرزاق داود فرماتے ہیں ہاں مہنگائی تو ہو گئی ہے۔۔ اسد عمر ۔۔ جو اس ساری کہانی کے ولن نظر آتے ہیں وہ دوسروں سے بھی مختلف نظر آئے۔۔ کہنے لگے معیشت کے اس جھٹکے کے آفٹر شاکس دو سال تک آتے رہیں گے۔

میں دوسروں کی طرح آپ سے کروڑ نوکریاں نہ ملنے کا گلہ نہیں کرتا ۔۔ کیونکہ ہمیں پتہ ہے یہ فوری طور پر آپ کے بس کا کام نہیں ہے۔۔ یہ بھی پتہ ہے یہ وعدہ پانچ سال تک کا ہے۔۔ پچاس لاکھ گھر تو خیر آئندہ 20سال تک بھی نہیں بن سکتے۔۔ آٹھ ماہ میں ان کا ذکر کرنا ہی وقت کاضیاع ہے۔۔ لیکن مہنگائی کے اس منہ زور تھپیڑوں کی ذد میں کون کون ہے ؟۔۔ کس کس نے زندگی کاخاتمہ کیا؟ ۔۔ اس پائپ لائن میں کتنے سفید پوش ہیں جن کو دووقت کی روٹی کیلئے بھی پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں۔۔ آپ یقینا اس طبقہ سے نا آشناہیں۔

میں الزام لگاتا ہوں آپ کی بے رحم پالیسیوں اور لایعنی اچھل کود نے کاروبار تباہ کردیئے ہیں۔۔ ۔ میڈیا کے بحران میں آپ برابر کے ذمہ دار ہیں۔۔ رئیل اسٹیٹ کے لین دین پر بے بنیاد پراپیگنڈا کے سایے منڈلا رہے ہیں۔۔بے یقینی اور مایوسی کے آثار ہر طرف نمایاں ہیں۔ ایسے میں اگر وزیراعظم صاحب ۔۔ آپ صرف تسلیاں ہی دیتے رہیں گے تو اس سے غریب عوام کا پیٹ نہیں بھرنے والا۔۔
عالی جاہ ! کتنا ہی اچھا ہو ۔۔ آپ اعلان کردیں کہ آج سے کوئی وزیر مشیر اپوزیشن پرحملے نہیں کرے گا بلکہ صرف اس معاشی بھنور سے نکلنے پر فوکس کردیں۔

آپ نے لوٹے ہوئے قومی خزانے کی رقوم واپس لانے کے جو دعوے کئے تھے۔۔ آٹھ ماہ میں ایک قدم پیش رفت نہیں دکھا سکے۔۔  ہمیں انٹر پول نے بھی لال جھنڈی دکھا کر یہ نوید سنا دی ہے ۔۔ خبر دار یہ شاہرہ عام نہیں ہے۔۔ اسحاق ڈار آپ کے تمام تر خطوط اور کوششوں کے باوجود ادھر ہی بیٹھے ہیں۔۔ الطاف بھائی تو خیر گیم ہی اور ہے۔۔ حسین حقانی پاکستان مخالف پراپیگنڈا کے باوجود موج کررہے ہیں۔۔ حسین نواز اور حسن نواز نے آپ کے پورے سسٹم کو جوتی کی نوک پہ رکھ دیاہے۔۔رہے آصف زرداری تو صبح آپ کاان کے خلاف بیان آتا ہے شام کو وہ آپ کے خلاف جوابی بیان داغ دیتے ہیں۔

آپ کی تمام طاقت نیب کا اندھا دھند اور بے سمت احتساب ہے ۔ نوٹس ہوتے ہیں کبھی گرفتاریاں۔ ایک عدالت سے سزا اور لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت ۔ ۔ بادی انظر میں نیب حکومت کی پولیس بن چکی۔۔ کبھی ایک پہ وار کھبی دوسرا نرغے میں۔۔ اور نتیجہ صفر جمع صفر برابر صفر۔۔اس سارے عمل میں آپ کی پارٹی سے ہٹ کر جو آپ کی نیت اور دیانتدار ہونے کے شبہ میں آپ کے ساتھ تھے وہ بھی دور ہوتے جارہے ہیں۔۔ پارٹی والوں کے دفاع کرنے کے حوصلے پست ہوتے جارہے ہیں۔

قوم کو آپ  سہانے سپنوں ، سبز باغوں اور بلندیوں پر کب لے جائیں گے جب لوگ بھو ک سے مر جائیں گے؟۔۔ایک طرف قرضے بھی دھڑا دھڑ لے رہے ہیں۔۔ کشکول تھام کر بھی عوام کو ریلیف دینے پر آمادہ نہیں ۔۔ گیس کا بل کھبی جو ڈھائی سو300آتا تھا۔۔ آج کل 3000ہزار تک پہنچ چکاہے۔۔ پٹرول کی قیمتیں بڑھاتے اوگرا کوکوئی شرم آتی ہے نہ متعلقہ وزیر کو۔۔ سوائے مہنگائی ، مایوسی اور غیریقینی کے عوام کو آپ نے دیا کیاہے؟۔۔ صرف خارجہ پالیسی میں بہتری نظر آتی ہے ۔۔ وہ بھی بقول شخصے ،، نکے دے ابا ،، کی مہربانی ہے۔

جناب وزیراعظم !
ہمیں آ پ کی نیت ، دیانتداری، سوچ ، وژن ، یا پلاننگ پر شک نہیں ہے ۔۔۔ مگر ہمیں یہ سب کچھ زمین پر دکھائی نہیں دیتا۔۔ قرضے مانگنے سے لے کر ایمنسٹی سکیم تک سب کچھ وہی ہو رہا ہے جس پر آپ تنقید کیا کرتے تھے۔۔ اسد عمر کے قومی اسمبلی اور اقتصادی فورمز پرکئے گے وہ عالمانہ خطبات ۔ ٹویٹ ، ویڈیو کلپس خود ان کے گلے پڑے ہوئے ہیں۔۔ اگر قیمتوں اورٹیکسوں کاتعین آئی ایم ایف نے ہی کرنا ہے  تو مسلم لیگ ن کی حکومت میں خرابی کیا تھی۔۔ وہ کم سے کم 180مسلم لیگی تو تھے۔۔ آپ کی پی ٹی آئی میں تو بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو صرف اقتدار کے لیے ہی پی ٹی آئی میں ہیں بعد میں نئی منڈیروں پر جا بیٹھیں گے۔

کپتان صاحب ۔ عوام کو ریلیف دیں۔ مہنگائی کی چکی میں مزید پسیں گے تو بددعائیں دیتے رہیں گے۔ ۔ صبر اور برداشت کی کوئی صورت اپنے اور اپنے ایسے طبقہ تک کیلئے تلاش کریں۔۔ غریب عوام سے مزید امتحان نہ لیں۔۔ وہ مزید صبر اور برداشت کے قابل نہیں ہیں۔ سرکاری ملازمین سے ہٹ کر بھی ایک طبقہ وطن عزیز میں رہتا ہے ۔۔ سرکاری ملازمین اگر بیس فیصد ہیں تو باقی نفری 80فیصد ہے۔۔ جن کے پاس روز گار ہیں وہ بھی بے روزگار ہورہے ہیں جب کہ تعلیمی فیکٹریاں بھی خام مال پیدا کئے جارہی ہیں جن کی آگے مارکیٹ میں کھپت نظر نہیں آتی۔

مسائل اتنے ہیں کہ بنی گالہ محل کی لان میں ۔۔ یا کسی بالکونی میں پشوری چپل پہنے ٹھنڈی ٹھار فضا میں بیٹھا شخص اس کااندازہ بھی نہیں کرسکتا۔۔ آپ کبھی ڈھوک حسو سے راجہ بازار چنگ چی رکشے پر سفر کریں۔۔ کبھی سبزی منڈی کے مزدوروں کاحال دیکھیں۔ کبھی صبح صبح چوکوں چوراھوں پر گرمالے اور بیلچے لیے مزدوروں پر نظر دوڑائیں ۔۔ جو بیشتر اوقات سارا دن بیٹھ کر خالی ہاتھ گھر چلے جاتے ہیں۔۔ کبھی ان مفلوک الحال طبقہ کو تصور میں لائیں جو ایک پاو چینی اور دس روپے چائے کا ساشے لے کر بچوں کو ناشتہ کراتے ہیں۔

عالی جاہ ! عوام سے قربانی مانگنے کا سلسلہ بند کریں۔۔ عوام کو ریلیف دیں۔۔ آپ وزیراعظم سٹیزن پوٹل بنا کر چین کی بانسری بجا رہے ہیں کہ اب عوام کے مسائل حل ہو رہے ہیں تو و ہ بھی سرکاری ملازمین کے ہاتھ ہے۔۔ آپ کو اندازہ نہیں وہ کار گزاریاں بھی صرف شکایت فارورڈ اور کام ہو رہا ہے تک محدود ہیں مسلہ جو ں کا توں پڑا رہتاہے اور سٹیزن پورٹل پر آ جاتاہے حل ہو گیا۔۔ فیڈ بیک میں صرف مثبت پر کلک کرنے کا آپشن ہے منفی رائے والا بٹن لاک ہو چکاہے۔۔غریب عوام کے دکھوں کا مداوا کیجیے ۔۔ ایسا نہ ہو وہ بھی کسی لاک کے آپشن پر چلے جائیں۔ ۔ہم آپ کو لاک نہیں آپریشنل دیکھنا چاہتے ہیں۔

Comments are closed.