افغانستان میں امن و استحکام طاقت کے ذریعے باہر سے تھوپا نہیں جا سکتا،عمران خان

ویب ڈیسک

اسلام آباد :وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے
افغانستان اور خطے کے لیے امید کا سنہری موقع ہے، افغان عوام کے بعد سب سے زیادہ قیمت پاکستانی عوام نے چکائی۔ پاکستان نے 40 لاکھ مہاجرین کی دیکھ بھال کی ذمہ داری نبھائی ہے۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں لکھے گئے اپنے آرٹیکل میں وزیراعظم عمران خان نے لکھا ہے کہ اس وقت دوحا میں افغانستان کی حکومت اور طالبان میں مذاکرات کے نتیجے میں افغان جنگ خاتمے کے قریب ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغان جنگوں کے باعث پاکستان میں اسلحہ اور منشیات پھیلی، امن مذاکرات کا انعقاد جبر کے تحت نہیں کیا جانا چاہیئے، پاکستان افغان میں فریقین پر تشدد میں کمی پر زور دیتا ہے۔

وزیر اعظم نے لکھا کہ افغان حکومت نے طالبان کو بطور سیاسی حقیقت تسلیم کیا، امید ہے طالبان بھی افغانستان کی پیشرفت کو تسلیم کریں گے۔ پاکستان افغانستان کو عالمی دہشت گردی کی پناہ گاہ بنتے نہیں دیکھنا چاہتا۔

عمران خان کا موقف ہے کہ افغان جنگ سے ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان آپس میں جغرافیہ، ثقافت اور رشتوں سے جڑے ہیں، جب تک ہمارے افغان بھائیوں اور بہنوں کو امن و سکون نصیب نہیں ہو گا، پاکستان بھی حقیقی امن حاصل نہیں کر سکتا۔

وزیراعظم پاکستان نے یہ بھی لکھا کہ افغانستان میں امن و استحکام طاقت کے ذریعے باہر سے تھوپا نہیں جا سکتا، صرف افغانستان کی قیادت اور افغانوں کی شمولیت سے ہی پائیدار امن ممکن ہے۔

عمران خان کے مطابق بین الافغان مذاکرات کا دور مزید مشکل ہو سکتا ہے جس کے لیے تحمل اور مفاہمت کی فضا درکار ہے، امن عمل سست اور تکلیف دہ بھی ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس موقع پر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مذاکرات کی میز پر تعطل میدان جنگ میں خونی تصادم سے کہیں بہتر ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے اپنے مضمون میں یہ بھی لکھا کہ اس سارے عمل کے دوران پاکستان اپنے افغان بھائیوں سے تعاون جاری رکھے گا، پاکستان سمجھتا ہے کہ امن مذاکرات کسی صورت بھی جبر اور تشدد کی فضا میں جاری نہیں رہ سکتے، فریقین پرتشدد واقعات میں کمی لائیں۔

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ امن مذاکرات کا انعقاد جبر کے تحت نہیں کیا جانا چاہیئے، افغانستان سے جلد بازی میں انخلا غیر دانشمندی ہوگا۔

وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ آزاد اور خود مختار افغانستان کی جدوجہد میں افغان عوام کی حمایت جاری رکھیں گے۔

Comments are closed.