آؤ ذمہ داری دکھائیں

احسن وحید

انسان خطاؤں کا پتلا ہے کوئی بھی انسان چاہے وہ کسی بھی عہدے پر ہو مکمل نہیں مکمل صرف  خالق کائنات کی ذات ہے ملک میں جاری حالیہ میڈیکل ایمرجنسی میں ہر ذی شعور درد دل رکھنے والا چاہے وہ سرکاری ملازم ہو یا ایک غریب مزدور ہر کسی کو اس وقت فکر لاحق ہے کہ کس طرح یہ وباء ہمارے ملک میں نقصان کے بغیر ختم ہو جائے۔

سوہاوہ میں خاتون کی ہلاکت پر پوری انتظامیہ قصور وار ہو سکتی ہے لیکن ابھی تنقید کرنے کا  وقت نہیں ابھی افواہیں افرا تفری خوف پھیلانے کا وقت نہیں کل سے سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی ہے کہ خاتون کی ہلاکت کی ذمہ دار  ضلعی انتظامیہ ہے خاتون کی تدفین بغیر ایس او پی کو پورا کیے کر دی گئی عام لوگوں نے شرکت کی انتظامیہ تدفین کے بعد پہنچی.

انتظامیہ کو چند دنوں سے اس خاتون کے متعلق میڈیا پر بار بار بتایا گیا اس سے ملنے والوں کے متعلق بھی بتایا گیا لیکن انتظامیہ نے کوئی ایکشن نہیں لیا ۔تدفین کے بعد انتظامیہ کے متعلق مختلف ویڈیو بیان سوشل میڈیا پر چلائے جارہے ہیں میں ان بیانات کی نفی نہیں کر رہا میں ان سب ویڈیوز کو جھٹلا نہیں رہا لیکن ابھی نہیں ابھی ہم ایک مشکل وقت میں ہیں.

ابھی اگرانتظامیہ سے کوئی کوتاہی ہو رہی ہے تو ہمیں ان سے ذاتی طور پر رابطہ کر کے اس کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے میں کسی آفیسر کی خوشامد کرنے کا ہر گز قائل نہیں  لیکن مثبت تنقید کے لیے بھی ابھی یہ وقت مناسب نہیں ۔ایک ڈپٹی کمشنر ۔اسسٹںنٹ کمشنر ۔ڈی پی او جہلم ۔میڈیکل آفیسر محکمہ صحت کے افسران دیگر محکموں کے افسران یہ سب ایک ٹیم کی شکل میں اس وقت اس وباء سے نمرد آزما ہیں.

ہمیں اس وقت  اس وباء سے نمٹنے کے لیے ایک ذمہ دار صحافی ایک ذمہ دار شہری ہونے کا حق ادا کرنا ہو گا صحافی کا بلا شبہ کام تنقید کرنا غلط کاموں کی نشاندہی کرنا معاشرے کی آنکھ کان اور زبان بننا ہی ایک صحافی کا فرض ہے لیکن راقم کا ذاتی خیال ہے کہ ہمیں اس وقت مثبت تنقید کو بھی ذمہ داران کو ان کے پرنسل نمبر پر بذریعہ فون یا واٹس ایپ پہچانا ہوگا.

ہماری طرف سے اس وقت انتظامیہ پر بے جا اور غیر ضروری تنقید کے ساتھ ساتھ مثبت تنقید سے بھی شہریوں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ سکتا ہے جو کہ نہ صرف ہمارے علاقے بلکہ پورے ملک کے لیے ایک چنگاری بن جائے گا ہمیں اس وقت اشد ضرورت ہے کہ ہم عوام میں انتظامیہ کا اعتماد بحال کریں تاکہ شہری انتظامیہ پر اعتماد کریں.

انتظامیہ کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ تحصیل و ضلعی سطح پر تمام صحافیوں کی طرف سے کسی مسئلے کی نشاندہی پر اس صحافی سے یا اپنے پی آر او کے ذریعے فوری طور پر رسپانس کیا جائے کیونکہ سوشل میڈیا جیسے اس ایٹم بم کی وجہ سے ایک غلط ویڈیو یا۔غلط فہمی پر مبنی رپورٹنگ سے کوئئ بڑا طوفان برپا ہو سکتا ہے.

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہماری ضلعی اور تحصیل کے افسران اس وباء سے نمٹنے کے لیے مسلسل مشاورت اور رابطے میں رہتے ہیں جس کی وجہ سے فوری رسپانس بھی کسی صحافی دوست کو ممکن نہ ہو لیکن ہمیں اس وقت ہر صورت ذمہ دار ہونے کا احساس کرنا ہو گا سوہاوہ میں خاتوں کے جاں بحق ہونے کی وجہ سے قرنطینہ سینٹر کے متعلق افواہوں پر وضاحت کرنا چاہوں گا.

اللہ ہمیں اس وباء سے محفوظ رکھے لیکن اگر خدانخواستہ اگر کسی اور علاقے میں اس طرح کی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو ہمیں اس علاقے کو قرنطینہ میں بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ گزشتہ دن اکرہ موہڑہ سے قرنطینہ ہونے والوں کا تجربہ کوئی حوصلہ افزاء نہیں اس پر انتظامیہ تنقید کا نشانہ بنتی ہے لیکن ہمیں مل کر ان مسائل کے خاتمے اور کوتاہیوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے.

حکومت پنجاب کی طرف سے پاکستان بھر میں قرنطینہ سینٹر بنانے کا فیصلہ کسی فرد واحد کا نہیں ہو سکتا لیکن ترقی یافتہ ممالک سے اگر موازنہ کریں تو انہوں نے ہر اس علاقے کو قرنطینہ سینٹر میں بدلا جہاں مریض سامنے آیا اور چین اس میں کامیاب بھی ہوا آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ ذمہ داری کا احساس صرف صحافی برادری نے نہیں کسی ڈپٹی کمشنر اے سی ڈی پی او سی او ہیلتھ نے اکیلے  نہیں کرنا.

ذمہ داری کا احساس جب تک ہم عوام نہیں کرینگے ہم اس وباء سے جنگ نہیں جیت سکیں گے ہمیں اس وباء سے لڑنے کے لیے انتظامیہ کا بھر پور ساتھ دینا ہو گا ہمیں انتظامیہ کی کسی کمی کوتاہی پر فوری انتظامیہ سے خود رابطہ کرنا ہو گا ان کے ضمیروں کو جھنجوڑنا ہو گا لیکن ساتھ ساتھ ہمیں خود بھی انتظامیہ کے احکامات پر عمل کرنا ہو گا.

اکرہ موہڑہ کے چند لوگوں نے کیوں پورے گاؤں کو پورے شہر کو رسک پر ڈال دیا کیوں انتظامیہ نے بار بار نشاندہی کے باوجود بروقت ایس  او پی کو پورا نہیں کیا کیوں انتظامیہ اس مریضہ کے کرونا ٹیسٹ پازیٹو آنے سے بے خبر رہی کیوں انتظامیہ نے سستی کا مظاہرہ کیااس پر تنقید کرنے اور ان جو جھنجھوڑنے کے لیے بڑا وقت پڑا ہے.

ہم خالق کائنات کے فضل اور اس کی عنایت سے اس وباء سے چھٹکارہ پا لیں تو پھر ڈپٹی کمشنر ڈی پی او ۔ڈی ڈی ایچ او ۔سی او ہیلتھ اے سی سمیت جو جو ذمہ دار ہے ان کی بے حسی غیر زمہ داری فرائض سے غفلت پر ان کو عوام کے سامنے لائینگے  لیکن ابھی نہیں ابھی اگر انتظامیہ غفلت کی مرتکب ہو رہی ہے ( جو کہ  ایسا قطعی نہیں ہو سکتا ) اس پر ہمیں ان کو عوام کے سامنے نہیں لانا.

عوام پر ان کا اعتماد بحال کر کے انتظامیہ کی حوصلہ افزائی کرنا ہے ان کو احساس دلانا ہے کہ وہ اپنی فیملی کو چھوڑ کر ہم لوگوں کی زندگیوں کی حفاظت کے لیے ہمارے شہروں میں موجود ہیں جس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں کیونکہ آخری الفاظ میں بس اتنا کہو گا کہ اس وائرس سے بچنے کا صرف واحد حل خود کو گھروں میں رکھنا ہے.

یہی واحد حل بتانے والے خود اپنے گھروں سے باہر ہمارے لیے اپنے پیاروں سے دور واحد حل کو بھی اختیار نہیں کر رہے بس یہی سوچنا ہے ہمیں کہ کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہوتا مکمل صرف خالق کائنات کی ذات ہے اللہ پاک ہمیں اس وباء سے محفوظ رکھے اور ہمارے ملک پاکستان پر اپنا خصوصی فضل اور کرم کرے آمین.

Comments are closed.