بورس جانسن برطانوی وزارت عظمیٰ اور پارٹی قیادت سے مستعفی

52 / 100

لندن : بورس جانسن برطانوی وزارت عظمیٰ اور پارٹی قیادت سے مستعفی ہو گئے ،اپوزیشن لیڈر سرکیئر اسٹارمر نے بورسن جانسن کے استعفیٰ کو برطانوی عوام کےلئے خوشخبری قرار دیا ہے۔

برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے استعفیٰ دینے کا اعلان کرتےہوئے کہا کہ نئے پارٹی لیڈر کی تقری تک وہ پارٹی کی سربراہی کے فرائض بھی نبھاتے رہیں گے۔

بورس جانسن نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ واضح ہے کہ پارلیمانی پارٹی ایک نئے لیڈر اور ایک نئے وزیراعظم کا انتخاب چاہتی ہے۔ پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔

جانسن نے کہا کہ 1922 کمیٹی کے چیئرمین سر گراہم بریڈی کو اپنے استعفی سے متعلق آگاہ کردیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ 1987 کے بعد کنزرویٹیو پارٹی نے کسی بھی انتخاب میں میری قیادت میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔

بورس جانسن نے کہا کہ کابینہ اراکین کو مطمئن کرنے میں ناکام رہا کہ وزیراعظم کی تبدیلی درست فیصلہ نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا اپنی حکومت کے دوران حاصل کامیابیوں پر بہت فخر ہے، بریگزٹ کی تکمیل، کورونا وبا سے ملک کا نکالنا اور مغربی ممالک کو یوکرین میں روسی جارحیت کے خلاف اکٹھا کرنا بڑی کامیابیاں ہیں۔

بورس جانسن نے کہا اعتراف کرتا ہوں کہ سیاست میں کوئی بھی شخص ناگزیر نہیں ہوتا، برطانوی عوام کو کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا کی بہترین جاب چھوڑنے پر انتہائی افسوس ہے۔

انہوں نے یقین دلایا کہ پارٹی جو بھی نیا لیڈر منتخب کرے گی اس کی مکمل سپورٹ کروں گا،اپنے خطاب میں بورس جانسن نے اپنی اہلیہ کیری سائمنڈز اور بچوں سے سپورٹ پر اظہار تشکر بھی کیا۔

بورس جانسن کا استعفیٰ قوم کے لیے خوشخبری ہے، اپوزیشن لیڈر 

دوسری طرف برطانیہ کے اپوزیشن لیڈر سرکیئر اسٹارمر نے ردعمل میں دیئے بیان میں کہا بورس جانسن کا استعفیٰ قوم کے لیے خوشخبری ہے.

سرکیئر اسٹارمر نے کہا کہ اس منصب کے لیے وہ کبھی بھی موزوں نہ تھے،لیبر لیڈر نے کہا کہ بورس جانسن جھوٹ، فریب اور اسکینڈلز کے ذمہ دار ہیں، وہ تمام افراد جنہوں نے بورس جانسن کا ساتھ دیا ان کے لیے شرمندگی کا مقام ہے۔

سرکیئر اسٹارمر نے مزید کہا کہ کنزر ویٹیو پارٹی کے 12 سالہ اقتدار میں ملکی ترقی جمود کا شکار رہی ہے۔

واضح رہے کہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی کابینہ کے 50 ارکان نے استعفے دے دیے ہیں۔برطانیہ میں 90 برس میں پہلی بار کابینہ نے اتنی بڑی تعداد میں اپنے ہی وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

Comments are closed.