امریکہ نے کہا تھا انڈیا نے ہماری باتیں نہ مانیں پاکستان بڑا حملہ کردے گا، بھارتی وزیرخارجہ

امریکہ نے کہا تھا انڈیا نے ہماری باتیں نہ مانیں پاکستان بڑا حملہ کردے گا، بھارتی وزیرخارجہ
60 / 100 SEO Score

فوٹو : فائل

اسلام آباد:بھارتی وزیرخارجہ سبرامینم جےشنکر نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ نے کہا تھا انڈیا نے ہماری باتیں نہ مانیں پاکستان بڑا حملہ کردے گا، بھارتی وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے وزیراعظم نریندر مودی سے فون پر یہ کہا تھا۔

امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے وزیراعظم نریندر مودی سےکہ اگر ہم نے کچھ باتیں تسلیم نہیں کیں تو پاکستان بھارت پر بہت بڑا حملہ کرے گا۔

امریکی صدر اکثر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کرانے کا سہرا اپنے سر لیتے ہیں، اور وزیر اعظم شہباز شریف سمیت کئی پاکستانی عہدیداروں کے بیانات ان کے اس دعوے کی تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیر خارجہ سبرامینم جے شنکر نے ایک امریکی جریدے کو انٹرویو میں پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی اور اس کے بعد ہونے والی جنگ بندی کے حوالے سے ایک مختلف موقف پیش کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 9 مئی کی رات جب امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے وزیر اعظم نریندر مودی کو فون کیا تو وہ اس وقت کمرے میں موجود تھے، جے شنکر کے مطابق،’ امریکی نائب صدر نے کہا کہ اگر ہم نے کچھ باتیں تسلیم نہیں کیں تو پاکستان بھارت پر بہت بڑا حملہ کرے گا۔’

جے شنکر نے مزید کہا کہ اس پر وزیر اعظم نریندر مودی نے واضح کیا تھا کہ بھارت بھی حملہ کر دے گا، ان کے بقول،’ اس رات پاکستان نے بڑے پیمانے پر حملہ کیا تھا اور ہم نے فوری کارروائی کی تھی۔’

جے شنکر نے دعویٰ کیا کہ ’ اس سے اگلی صبح امریکی سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے مجھے فون کیا اور کہا کہ پاکستان بات چیت کے لیے تیار ہے۔’

خیال رہے کہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے گزشتہ ماہ اس بات کی تردید کی تھی کہ ’بھارتی جارحیت‘ کے بعد ان کی جانب سے جنگ بندی کی درخواست کی گئی تھی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کئی بار اصرار کر چکے ہیں کہ دونوں جنوبی ایشیائی ہمسایہ ممالک کے درمیان ممکنہ جوہری تصادم کو انہوں نے ذاتی مداخلت، تجارتی دباؤ اور اعلیٰ سطح کے رابطوں کے ذریعے روکا۔

بھارت کئی مواقع پر اس بات پر ناراضی کا اظہار کر چکا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ مسلسل بھارت و پاکستان کے باہمی معاملات میں مداخلت کی کوشش کر رہی ہے، خاص طور پر کشمیر کے معاملے پر۔

ٹرمپ کی بار بار ثالثی کی پیشکش پر نئی دہلی کی طرف سے شدید ردعمل آیا ہے، جو طویل عرصے سے کسی تیسرے فریق کی مداخلت کو مسترد کرتا رہا ہے۔

ٹرمپ نہ صرف مئی کی کشیدگی ختم کرانے کا سہرا اپنے سر باندھتے ہیں بلکہ پاکستانی عسکری قیادت کی تعریف بھی کر چکے ہیں اور ان کی تحمل کی پالیسی کو سراہتے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے تعاون سے پرامن حل ممکن ہوا، اگرچہ یہ مؤقف واشنگٹن کی سفارتی حکمت عملی کے لیے موزوں ہو سکتا ہے، لیکن نئی دہلی کے لیے قابلِ قبول نہیں۔

Comments are closed.