کثیر الجہتی.سے عا لمگيريت تک

49 / 100
شکیل احمد رامے

عالمی نظام اور تعاون کا فلسفہ کثیر الجہتی کے اصولوں پر مبنی ہے۔ اسے دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنایا گیا تھا۔ اس مقصد کے لیے متعدد ادارے بنائے گئے۔ پائیدار قیام امن کو یقینی بنانے کےلئے اقوام متحدہ کا ادارہ تشکیل دیا گیا۔

اقوام متحدہ کے زیراہتمام یو این ڈی پی، یونیسیف، یونیسکو وغیرہ قائم کئے گئے۔ ایجنسیاں بڑھتی رہیں اور یو این ای پی، یو این ایف سی وغیرہ نئے مسائل سے نمٹنے کےلئے نئی ایجنسیاں تشکیل دی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مالیاتی اور ترقیاتی اداروں کی بنیاد بھی رکھی گئی۔

صحت مند مالیاتی نظام کو برقرار رکھنے کیلئے اور ایک اصول پر مبنی مالیاتی نظام کی تعمیر کےلئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)قائم کیا گیا۔ عالمی بینک کو دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے ازالہ اور تعمیر نو کے ساتھ ساتھ غربت کا خیال رکھنے اور پائیدار ترقی کےلئے ممالک کو امداد فراہم کرنے کا فریضہ سونپا گیا تھا۔

بدقسمتی سے یہ تنظیمیں طاقت کا ذریعہ بنتی چلی گئیں جس کی وجہ سے طاقتور ممالک کمزور ممالک کا استحصال کرنے لگے۔ طاقتور ممالک نے جی-20، جی-7، او ای سی ڈی، نیٹو وغیرہ جیسے طاقت کے نئےمراکز بنا کر اپنے کردار اور اثر و رسوخ کو مزید مستحکم کیا۔

چھوٹے ممالک نے بھی اس کی پیروی کرنے کی کوشش کی اور اپنی تنظیمیں آسیان، سارک، جی 77+چین، افریقی یونین وغیرہ تشکیل دیں۔ اگرچہ یہ تنظیمیں کثیر الجہتی نوعیت کی تھیںلیکن ترجیحات اور اثر و رسوخ کی ڈوڑ نے دنیا کو مزید بلاکس میں تقسیم کر دیا۔

اس سارے کھیل میں نقصان انسانیت کا ہوا ۔ انسان پوری دنیا میںمصائب سے دوچار ہوگئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ سوویت یونین کے ٹکڑے ہونے کے بعد امریکہ اور اتحادیوں نے نئے عالمی نظام(new world order) جیسے نئے اصول متعارف کرانا شروع کئے اور ان اصولوں کولوگوں کو سزا دینے اور قتل کرنے کیلئے استعمال کیا۔

سب سے پسندیدہ ٹول معاشی پابندیاں تھا۔ انہوں نے اسے بے رحمی سے استعمال کیا اور بے گناہ لوگوں کو قتل کیا۔ انہوں نے جمہوریت، انسانی حقوق اور دہشت گردی کے نام پر بہت سے ممالک پرحملے کئے جن میں لاکھوں انسان مارے گئے۔

مختصر یہ کہ کثیر الجہتی نظام جسے انسانیت کےلئے پائیدار امن اور خوشحالی لانے کےلئے وضع کیا گیا تھا، بری طرح ناکام ہو رہا ہے۔ اس نظام نے صرف ہارنے والوں اور جیتنے والوں کو پیدا کیا۔ اب عوام اس نظام پر سوال اٹھاتے ہیںاور یہکہہرہے ہيں کہ روبہ زوال عالمی حکمرانی کا لبرل آرڈرنہ عالمی تھا اور نہ ہی اس میں قانون کی حکمرانی تھی۔

اس لئے ایک منصفانہ، قانونی اور انسانیت پرمبنی ایسا نظام تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو معاشی اور دیگر مفادات کی بنیاد پر گروہ بندی کی حوصلہ شکنی کرے۔ ایک ایسا نظام جو ثقافت، مذہب، حکمرانی، سماجی زندگی کا احترام کرتاہو اور حکمرانی یا معاشی نظام یا خود ساختہ اقدار پر یقین نہ رکھتا ہو۔

جنوبی قیادت نے بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور دیگر فورمز پر اپنی تقریروں میں یہی بات دہرائی۔ انہوں نے خاص طور پر اپنی معاشی حیثیت پر غورکئے بغیر سب کےلئے یکساں احترام کی بات کی۔ جیسا کہ صدرژی نے کہا کہ”کسی کی غنڈہ گردی نہیں چلے گی“۔

اس تناظر میں کثیر الجہتی سے ایک قدم آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور دنیا کو آفاقیت کی خصوصیات کی تخلیق کرنے کےلئے کام کرنا چاہئے۔ تاہم کثیر الجہتی نظام کے کمزور اور مضبوط نکات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ایسے ہمہ گیر آفاقی نظام کی تعمیر کی جانی چاہئے.

جس میں ویٹو یا غیر مساوی ووٹنگ کا حق نہیں ہونا چاہئے، ہر ایک کے ساتھ با وقار اور یکساں سلوک کیا جانا چاہئے۔ اگر دنیا اس نظام کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس سے پائیدار امن کی راہ ہموار ہوگی۔

Comments are closed.