سانحہ اے پی ایس ،سات سال اور اقدامات؟

52 / 100

فہیم خان 

سانحات کیسے ہماری زندگی بدل دیتے ہیں ایساہی ایک دلخراش واقعہ آج سے سات برس قبل پیش آیاجب انسانیت کے دشمنوں اور سفاک دہشتگردوں نے اے پی ایس کے معصوم بچوں پر قیامت ڈھائی اس کربناک واقعہ کی چھاپ اور دردآج بھی ان بچوں کے والدین اور پوری قوم کے دلوں میں تازہ ہے یہ دن ملک کی تاریخ کاسیاہ دن تصور کیا جاتاہے ۔ملک کے لئے یہ ایک ناقابل فراموش سانحہ تھا.

یہ درداور غم وہی محسوس کرسکتے جوانسانیت سے پیار کرتے ہوں ۔آج سے سات سال قبل16 دسمبر2014کے دن ابھی سورج طلوع ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ آرمی پبلک سکول پشاور میں قیامت برپا کی گئی۔ بزدل دہشتگرد آرمی پبلک اسکول پشاور میں داخل ہوئے اور قتل وغارت کا بازار گرم کر دیا۔اس بدقسمت دن جب یہ معصوم بچے گھر سے سکول کے لئے تیار ہوکر نکلے.

انہیں کیا معلوم تھا کہ آج کے بعدیہ دوبارہ اپنے گھر لوٹ کر نہیں آئیں گے انہیں کیا خبر تھی کہ درندہ صفت ،سفاک دہشتگردوں انہیں خون میں نہلا دیں گے ۔ یوں توسانحہ کوسات برس بیت چکے ہیں مگر اس کی یادآج بھی دلوں میں تازہ ہے ۔یہ ایک ایساگھاؤ ہے جوہمیشہ یادرہے گا۔

اس اندوہناک واقعے نے نہ صرف والدین کو گہرازخم دیابلکہ پوری کادل چھلنی کردیا۔۔گو اس سانحہ کے بعد تمام سیاسی جماعتیں، سوسائٹی ،عسکر ی قیادت اور پوری قوم یکجا ہوگئی اور ایکشن نیشنل ایکشن پلان بنایاگیا اوردہشتگردی کے اس ناسور کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے کے لئے امن کی راہیں مرتب کیں.

اس کے بعد دہشتگردی کی عفریت کو ختم کرنے کے لئے آپریشن ضرب عضب کاآغاز کیاگیا ۔اس سانحے نے پوری قوم کو متحد کیا اور قوم اس بحرانی کیفیت سے کافی حد تلک نکل آئی ہے ۔ آرمی پبلک سکول کے شہداء کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں اس سانحہ کے بعد پاکستانی قوم کے حوصلے پست ہونے کی بجائے دہشت گردی کے خلاف مزید بلند ہوئے.

پوری قوم متحد ہوئی اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت دشمنوں کو انکے ٹھکانوں میں دھونڈ ڈھونڈ کر نشانہ بنایا گیا۔اب سوال یہ ہے کہ سانحے کے بعد قوم نے جس یکجہتی کامظاہرہ کیااور جواہداف رکھے گئے کیا ہم اس جانب اسی رفتار کے ساتھ آگے بڑھے ہیں اور ہم نے اس سے کیا حاصل کیاہے۔

ان معصوم بچوں کے والدین کی جانب سے واقعہ کی جوڈیشل انکوائر ی کے مطالبے پر کیوں دیر سے عمل شروع کیاگیا یہ وہ سوالات ہیں جن کے بعد ہی والدین اور قوم کی تشنگی ہوسکتی ہے ،نیشنل ایکشن پلان میں شامل نکات قوم کے جذبات کی ترجمانی ہیں جن میں کہاگیا کہ دہشتگردی کے ناسورکوختم کرنا ہے.

اس کے لئے ضروری ہے کہ ان عناصر کی فنڈنگ کے ذرائع کی گھوج لگاکر ان کاجڑسے خاتمہ کیاجائے ۔ ان شہید بچوں کے والدین کواس وقت چین نہیں مل سکتا جب تک ہم بحیثیت قوم دہشتگردی کے اس ناسور کواکھاڑنہیں پھینکتے ۔درحقیقت یہ معصوم بچے ہی ہمارے ہیرو ہیں.

ان کے والدین کے عزم وحوصلے سے ہی ہمیں اتحاد واتفاق کاسبق ملنا چاہئے۔دہشتگردی کی عفریت کے مکمل خاتمے کے لئے ہمیں ابھی بہت آگے جاناہے ۔اب بھی کچھ ایسے سوالات ہیں جن کے مکمل جوابات ملنے تک معصوم بچوں کے والدین سمیت پوری قوم منتظر رہے گی ۔

Comments are closed.