جامعہ بنوری ٹاون کے مہتمم مولانا عبدالرزاق اسکندر کون تھے؟

ویب ڈیسک

جامعہ بنوری ٹاون کراچی کے مہتمم رئیس و شیخ الحدیث مولانا عبدالرزاق گزشتہ روز انتقال کرگئے ، ان کے دنیا سے چلے جانے کی خبریں تو میڈیا کے زریعے عوام تک پہنچی ہیں تاہم ان کی زندگی کے بارے میں بھی جاننے کیلئے بہت سے دلوں میں تشنگی ہے اسی لئے درج ذیل تحریر کے زریعے ان کی زندگی کے سفر کے حوالے سے کچھ معلومات پیش خدمت ہیں۔

مختصر تعارف
آپ کا تعلق قوم تنولی تپہ پلال کے خیل مجیتال سے تھا.
(رئیس و شیخ الحدیث:- جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی۔
صدر:- وفاق المدارس العربیہ پاکستان۔
صدر:- اقراء روضة الاطفال ٹرسٹ پاکستان۔
امیر مرکزیہ:- عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان۔)
پیدائش
آپ 1935ء میں علاقہ تناول (لوہرتنول) ضلع ایبٹ آباد کے گاؤں کوکل کے ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔
آپ کا بچپن
آپ بچپن ہی سے سلیم الفطرت ہیں۔ آپ کے معاصرین گواہی دیتے ہیں کہ آپ میں جو نیکی و صلاح اس پیرانہ سالی میں نظر آتی ہے؛ یہ جوانی میں بھی اسی طرح دکھائی دیتی تھی۔ گویا آپ کا بچپن، جوانی، اور بڑھاپا نیکی و تقویٰ کے لحاظ سے ایک جیسے تھے۔
آپ کے والد گرامی
سکندر خان بن زمان خان اپنے حلقہ میں بڑے باوجاہت تھے۔ خاندان اور گاؤں کے تنازعات میں ان سے رجوع کیا جاتا تھا؛جنہیں وہ خوش اسلوبی سے نمٹادیا کرتے تھے۔ بچپن ہی سے علماء و صلحاء سے گہرا تعلق تھاجس کا اثر اُن کی زندگی پر ایسا نمایاں تھا کہ دینی معلومات آپ کو خوب مستحضر تھیں! جس کی بنا پر بہت سے علما بھی آپ سے محتاط انداز میں گفتگو کرتے تھے، کیوں کہ غلط بات پر آپ ٹوک دیا کرتے تھے۔ نماز باجماعت کی پابندی، تلاوتِ قرآن کریم، ذکرِ الٰہی، صلہ رحمی، اصلاح ذات البین، رأفت و شفقت، اور ضعفاء کی خبرگیری،ان کے خصوصی اوصاف تھے۔ مسجد کی خدمت و تعمیر سے بہت شغف تھا۔
تعلیم
قرآن کریم کی تعلیم اور میٹرک تک دنیاوی فنون گاؤں میں حاصل کیے۔ اس کے بعد ہری پور کے مدرسہ دارالعلوم چوہڑ شریف میں دو سال، اور احمد المدارس سکندر پور میں دو سال پڑھا۔ 1952ء میں مفتیءِ اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ تعالیٰ کے مدرسہ دارالعلوم نانک واڑہ کراچی میں درجہ رابعہ سے درجہ سادسہ تک تعلیم حاصل کی۔ درجہ سابعہ و دورہٴ حدیث کے لیے محدّث العصر علامہ سید محمّد یوسف بَنُوری رحمة اللہ علیہ کے مدرسہ جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا، اور 1956ء میں فاتحہٴِ فراغ پڑھا۔ (واضح رہے کہ اس مدرسہ میں درسِ نظامی کے پہلے طالبِ علم آپ ہی تھے۔) اس کے بعد آپ نے 1962ء میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منوّرہ(جس کے قیام کو ابھی دوسرا سال تھا) میں داخلہ لے کر چار سال علومِ نبویہ حاصل کیے۔ بعد ازاں جامعہ ازہر مصر میں 1972ء میں داخلہ لیا، اور چار سال میں دکتورہ مکمل کیا؛ جس میں "عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ امام الفقہ العراقی” کے عنوان سے مقالہ سپردِ قلم فرمایا۔
آپ کے اساتذہ کرام
۔۔۔: علامہ سیّد محمّد یوسف بَنُوری(تلمیذ:محدّث علامہ کشمیری رح)۔
۔۔۔: مولانا عبدالحق نافع کاکاخیل(تلمیذ:حضرت شیخ الہند رح)۔
۔۔۔: مولانا عبدالرّشید نعمانی(تلمیذ: حضرت مدنی رح)۔
۔۔۔:مولانا لطفُ اللہ پشاوری۔
۔۔۔: مولانا سَحبان محمود۔
۔۔۔: مفتی ولی حَسن ٹونکی۔
۔۔۔: مولانا بدیع الزّماں۔ (رحمہم اللہ تعالیٰ)
درس و تدریس
دارالعلوم نانک واڑہ میں دورانِ تعلیم ہی عمدہ استعداد و صلاحیت کی بناء پرکراچی میں لیبیا و مصر کی حکومتوں کے تعاون سے عربی زبان سکھانے کے لیے مختلف مقامات پر ہونے والی تربیتی نشستوں میں پڑھانے کا موقع ملا، اس سے آپ کو تدریس کا کافی تجربہ حاصل ہوگیا۔ علاوہ ازیں بَنُوری ٹاؤن میں درسِ نظامی کی تکمیل سے پہلے ہی حضرت بَنُوری رح نے آپ کی صلاحیتوں کو جانچتے ہوئے اپنے مدرسہ کا استاذ مقرر فرمایا۔ آپ کا زمانہٴِ تدریس 1955ء سے تاحال جاری رہا۔
بیعت و خلافت
ظاہری علوم کی تکمیل کے علاوہ آپ کی باطنی تربیت میں بھی شیخ بَنُوری کا سب سے زیادہ حصہ تھا۔ علاوہ ازیں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمّد زکریا کاندہلوی اور حضرت ڈاکٹر عبدالحء عارفی نوّر اللہ مرقدَہما کی صحبت سے مستفید ہوئے، اور حضرت مولانا محمّد یوسف لدھیانوی شہید اور حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہما اللہ تعالیٰ سے اجازتِ بیعت و خلافت حاصل ہوئی۔
جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے تعلق
1955ء میں اس مدرسہ کے درسِ نظامی کے پہلے طالبِ علم کی حیثیت سے یہ تعلق استوار ہوا، دورانِ طالبِ علمی ہی حضرت بَنُوری رح نے آپ کی عمدہ استعداد دیکھتے ہوئے آپ کو استاذ مقرر فرما کر یہ تعلق مضبوط کردیا، 1977ء میں انتظامی صلاحیتوں کے اعتراف میں ناظمِ تعلیمات مقرر ہوئے، 1997ء میں مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید رح کی شہادت کے بعد رئیس الجامعة کے لیے آپ کا انتخاب ہوا اور 2004ء میں مفتی نظام الدین شامزئی شہید رح کی شہادت کے بعد شیخ الحدیث کے مسند نشین بنے؛ یہ دونوں ذمہ داریاں آپ تاحال بحسن و خوبی نبھارہے ہیں۔
عالمی مجلس تحفط ختم نبوت سے تعلق
عقیدہٴِ ختمِ نُبوّت کے تحفظ اور فتنہٴِ قادیانیت کے تعاقب کے لیے یہ جماعت قیامِ پاکستان کے بعد امیرِ شریعت سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ کی زیرِ امارت وجود میں آئی۔ 1974ء میں شیخ بَنُوری رح کی زیرِ امارت اس جماعت کی چلائی جانے والی تحریک کے نتیجہ میں آئینِ پاکستان میں عقیدہٴِ ختمِ نُبوّت کا تحفظ ممکن ہوا، 1984ء میں اسی جماعت کے تحت چلائی جانے والی تحریک کے نتیجہ میں امتناعِ قادیانیت آرڈیننس پاس ہوا۔ پاسپورٹ میں مذہب کے خانہ کی بحالی، اور 2010ء میں ناموسِ رسالت کے قانون کے تحفظ کے لیے چلائی جانے والی تحریک میں بھی اس جماعت کا بنیادی و کلیدی کردار رہا۔
حضرت ڈاکٹر صاحب 1981ء میں اس جماعت کی مجلسِ شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ حضرت سیّد نفیس الحسینی شاہ رح کے وصال( 2008 ء کے بعد آپ نائب امیر مرکزیہ بنائے گئے۔ حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی رح کے انتقال (2015ء ) کے بعد آپ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیرمرکزیہ منتخب ہوئے۔ علاوہ ازیں آپ نے مجلس کی کئی اردو مطبوعات کا عربی میں ترجمہ کرکے عرب ممالک میں اِنہیں عام فرمایا۔
اقراء روضة الاطفال ٹرسٹ پاکستان سے تعلق
اکابر و اسلاف کی دعاؤں میں قائم کردہ پاکستان کے پہلے دینی علوم و دنیاوی فنون کا امتزاج رکھنے والے ادارہ کے سرپرست و صدر مفتی ولی حسن ٹونکی، مولانا محمّد یوسف لدھیانوی، حضرت سیّد نفیس الحسینی، مولانا خواجہ خان محم

اس کے علاوہ آپ وفاق کی نصاب کمیٹی اور امتحان کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔

تصانیف و تالیفات
الطریقة العصریة۔
کیف تعلم اللغة العربیة لغیر الناطقین بھا۔
القاموس الصغیر۔
مؤقف الامة الاسلامیة من القادیانیة۔
تدوین الحدیث۔
اختلاف الامة والصراط المستقیم۔
جماعة التبلیغ و منھجہا فی الدعوة۔
ھل الذکریة مسلمون؟۔
الفرق بین القادیانیین و بین سائر الکفار۔
الاسلام و اعداد الشباب۔
تبلیغی جماعت اور اس کا طریقہٴِ کار۔
چند اہم اسلامی آداب۔
محبّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔
حضرت علی اور حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین۔

آپ کی زیادہ تر تصانیف اردو سے عربی، اور کچھ عربی سے اردو میں مترجَم ہیں۔ جبکہ مشہور کتاب الطریقة العصریة عرصہ دراز سے وفاق المدارس کے نصاب میں شامل ہے۔

علاوہ ازیں آپ نے عربی و اردو میں بیشمار مقالات و مضامین سُپردِ قلم فرمائے ہیں، جو عربی و اردو مجلّات، رسائل و جرائد، اور اخبارات کی زینت بنے اور مختلف کانفرنسوں میں پڑھے گئے ہیں۔

Comments are closed.