ڈسٹرافینز کی مدد کرنااولین ترجیح ہے، محمدی محی الدین

ثاقب لقمان قریشی
نام: محمدی محی الدین
تعلیم؛ ایم اے انگلش لٹریچر
شعبہ: تعلیم و تدریس
ٹرسٹ: حبیب ایم ڈی ہوپ (رجسٹرڈ)

خاندانی پس منظر:

والد صاحب مشہور ای این ٹی سپیشلٹ تھے۔لمبے عرصے تک سعودیہ میں فرائض سر انجام دیتے رہے۔ محمدمی کی پیدائش بھی سعودیہ میں ہی ہوئی۔ خاندان ایک بھائی اور بہن پر مشتمل ہے۔ بھائی کینیڈا میں بنک مینجر کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے جبکہ بہن ہاؤس وائف ہیں۔
زمینی حقائق ڈاٹ کام سے ایک خصوصی نشست کا احوال درج ذیل ہے.

سوال: آپ کس سکول، کالج اور یونیورسٹی سے پڑھیں؟ مشاغل کیا تھے اور کیا کرنے کی خواہش رکھتی تھیں؟

ابتدائی تعلیم راولپنڈی کے سرسید سکول سے حاصل کی۔ کالج کی تعلیم فیڈرل گورنمنٹ کالج فار وومن کشمیر روڈ راولپنڈی سے حاصل کی۔ میں عام لڑکیوں سے خاصی مختلف تھی، شخصیت میں سنجیدگی کا عنصر بچپن ہی سے نمایاں تھا۔ادب اور تاریخی کتب، میگزین اور ناول شوق سے پڑھا کرتی تھی۔ انگریزی ادب میں دلچسپی کی وجہ سے اسی میں ایم اے کیا۔
دوسروں کی مدد کر کے خوش ہوتی تھی بڑی ہوکر کوئی ایسا کام کرنا چاہتی تھی جس سے انسانیت کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی جا سکے۔

سوال: شادی کہاں ہوئی؟ کتنے بچے ہیں؟

شادی والدین کی پسند سے لاہور کے معتبر خاندان میں ہوئی۔ خدا نے دو بچوں کی نعمت سے نوازا۔ بیٹی کا نام ماہم ہے باریویں جماعت کی طالبہ ہیں۔ مرحوم صاحب زادے کا نام حبیب تھا وفات سے قبل اولیولز کی تیاری میں مصروف تھا۔

سوال: آپ کو کس عمر میں پتہ چلا کہ حبیب دوسرے بچوں سے تھوڑے مختلف ہے ؟

حبیب کی پیدائش نارمل بچوں کی طرح تھی۔ عام بچوں کی طرح ہنسنا، کھیلنا، باتیں کرنا سب نارمل نظر آتا تھا۔ ڈھائی سال کی عمر میں محسوس ہوا کہ میرا بچہ عام بچوں کی طرح زمین سے نہیں اٹھتا ہے بلکہ اسے اٹھنے کیلئے محنت کرنا پڑتی ہے۔ اسی طرح یہ عام بچوں کی طرح سیڑھیاں نہیں چڑھتا بلکہ سنبھل سنبھل کر ایک ایک سیڑھی چڑھتا ہے۔
فیملی ڈاکٹر کے پاس گئی سارا ماجرہ بتایا۔ ڈاکٹر اسے معمول کی کمزوری سمجھتے رہے۔ لیکن ماں تو ماں ہوتی ہے۔ میری تشویش روز بروز بڑھتی چلی گئی۔

سوال: ابتدائی علاج کن ہسپتالوں سے کرواتی رہیں؟ ڈاکٹرز کیا تجویر کرتے رہے؟

ننھے حبیب کا ابتدائی علاج فیملی ڈاکٹرز سے چلتا رہا۔ سی پی کے ٹیسٹ سے مسکولر ڈسٹرافی کا علم ہوا ۔ مزید مشورے کیلئے ماڈل ٹاؤن لاہور کی مشہور لیڈی ڈاکٹر کے پاس چلے گئے جنھوں نے ای ایم جی / این سی ایس کا ٹیسٹ کروانے کا مشورہ دیا، ٹیسٹ کا رزلٹ مثبت آنے کے بعد ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی رائے کو حتمی قرار نہیں دیا اور دوسرے ڈاکٹرز کی رائے لینے کا مشورہ دیا۔ پھر کسی نے ڈاکٹر اکرام سے چیک کروانے کا کہا۔ رپورٹس کا جائزہ لینے کے بعد ڈاکٹر نے مسکولر ڈسٹرافی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ بچے کی عمر اتنی کم ہے کہ اسے دوائی نہیں دی جاسکتی۔ پاکستان میں اس بیماری کے نہ تو اچھے ڈاکٹرز، نہ علاج اور نہ ہی قبولیت اسلیئے بہتر ہوگا کہ آپ لوگ کسی اور ملک چلے جائیں ورنہ بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سوال: ڈاکٹر نے حبیب کی بیماری کی کیا وجہ بتائی؟

بچے کو مستقبل کی مشکلات سے بچانے کیلئے ماں کو جہاں کہیں سے کسی اچھے ڈاکٹر کا پتہ چلتا رائے لینے چلی جاتیں۔ ہر ڈاکٹر کا اپنا طریقہ کار اور رائے ہوتی۔ ڈاکٹرز کی مختلف رائے محمدی کو شدید تناؤ میں مبتلا کردیتی۔
ایک مشہور و معروف سرجن نے ٹیسٹوں کے بعد بیماری کو جینیاتی قرار دیا اور کہا کہ یہ بیماری آنے والی کئی نسلوں پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر نے ماں کے خاندان کو بیماری کا ذمہ دار اور قصور وار ٹھرایا۔ ڈاکٹر کے الفاظ سے مجھے شدید ٹھیس پہنچی لیکن ہار نہ مانتے ہوئے حالات سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

سوال: نوکری کیوں کرنا پڑی؟ شوہر سے علیحدگی کی وجہ کیا بنی؟

میں شادی سے پہلے بہترین استاد کے طور پر جانی جاتی تھی۔ حبیب کے علاج پر ہونے والے اخراجات کا بوجھ اٹھانے کیلئے دوبارہ سے نوکری شروع کردی۔ میکے کی طرف سے بھی مدد مل جاتی تھی جسکی وجہ سے علاج کا سلسلہ چلتا رہا۔
لیکن حبیب کی بیماری کا سن کر باپ کی دلچسپی خاندان کی طرف کم ہونا شروع ہوگئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ ایک تعلیم یافتہ اور پروفیشنل خاتون کیلئے یہ سب ناقابل قبول تھا۔ خاندان سے لاتعلقی علیحدگی کی وجہ بنی۔

سوال: کس سکول میں پڑھا رہی ہیں؟ کتنی نوکریاں کر چکی ہیں؟ کون کون سے مضامین پڑھاتی ہیں؟

علیحدگی کے بعد میں مستقل بنیاد پراسلام آباد منتقل ہوگئی۔ خود مختار اور باوقار زندگی گزارنے کیلئے مختلف سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بطور وزیٹنگ فکیلٹی اور شام میں بچوں کو ٹیوشن پڑھایا کرتی تھی ۔ حبیب کی بیماری کی وجہ سے مستقل نوکری کرنا مشکل تھا۔ جگر کے ٹکرے کو زیادہ وقت دینے کیلئے نوکریوں کو ٹھکرا دیا کرتی۔
حبیب کی وفات سے محض ایک ماہ قبل سٹی سکول میں تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ انگریزی زبان اور ادب میں مہارت کی وجہ سے او لیول کو انگریزی جبکہ ٹیوشن کے طالب علموں کو مختلف مضامین پڑھاتی ہوں ۔

سوال: حبیب نے ابتدائی تعلیم کہاں سے شروع کی؟ تعلیمی سفر میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

حبیب نے لاہور کے گرائمر سکول سے تعلیمی سفر کا آغاز کیا۔ ہر کلاس میں بہترین پوزیشن لینے کے باوجود وہ عام بچوں کی طرح تیزی سے لکھ نہیں سکتا تھا ۔ اسے عام بچوں کی طرح اٹھنے، بیٹھنے، بھاگنے اور دوڑنے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا جسکی وجہ سے اسےتنقید کا سامنا رہتا۔ ہونہار طالب علم ہونے کے باوجود اسےاساتدہ کرام سے مدد نہیں ملتی تھی۔ جسکی وجہ سے وہ مایوس ہو جاتا ۔ سکول انتظامیہ نے حبیب کی مدد کرنے کے بجائے والدین سے معذرت کرلی جسکی وجہ سے تعلیمی سفر کو تیسرے لیول پرمنقطع کرنا پڑا-
حبیب کی ریگولر تعلیم کا سلسلہ تیسری جماعت سے رک گیا لیکن اس نے گھر میں رہتے ہوئے اگلی جماعتوں کے امتحانات دینا شروع کردیئے۔ وفات سے قبل حبیب دن رات اولیولز کی تیاری میں مصروف رہا۔

سوال: حبیب کتنا حاضر دماغ تھا؟ اپنی بیماری پر کتنی تحقیق کر رکھی تھی؟ تحقیق سے اپنے مسائل کیسے حل کر لیتا تھا؟ آپ لوگوں نے بازار کے کھانوں کا بائیکاٹ کیوں کر رکھا تھا؟

حبیب کو پڑھنے اور تحقیق کرنے کا بہت شوق تھا۔ حبیب سے ملنے والا ہر شخص اس کی ذہانت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا۔ وفات سے دو سال قبل ڈی این اے ٹیسٹ سے ڈوشین کی تصدیق ہوئی۔ نوجوان نے مرض کا پتہ چلتے ہی اس پر تحقیق کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ڈوشین کے مریض کس طرح بہترین زندگی گزار سکتے ہیں، انھیں کس قسم کی غذائیں لینی چائیں وغیرہ جیسی چیزوں کو سختی سے اپنے اوپر لاگو کر دیا۔
گھر میں بازاری اور جنک فوڈ کھانے پر پابندی لگا دی گئی۔ سارا گھر سبزیاں اور دیسی پکوان کھانے لگا۔

سوال: کیا آپ جانتی تھیں کہ حبیب کے مرض میں مبتلا بچے کم عمری میں دنیا سے چلے جاتے ہیں؟

حبیب سمیت گھر کے تمام افراد یہ جانتے تھے کہ ڈوشین کے مریض بیس سال کی عمر تک کم ہی پہنچ پاتے ہیں۔ سب کچھ جانتے ہوئے بچے نے بیماری کا بہت بہادری سے مقابلہ کیا- 5 نومبر 2019 کو ماں کا لال خالق حقیقی سے جا ملا۔

سوال: حبیب کی وفات کے بعد کتنا عرصہ تناؤ کا شکار رہیں؟ اپنے آپ کو کیسے سمیٹا؟ موٹی ویشن کہاں سے ملی؟

محمدی نے بتایا جگر کے ٹکرے کی وفات کے چھ ماہ تک میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہی۔ گھر خالی خالی سا محسوس ہوتا۔ کانوں میں اس کی آواز گونجتی۔ گھر کی ہر چیز میں اسکی جھلک دکھائی دیتی۔
استاد ہونے کی وجہ سے میرے ساتھ مستقبل کے بہت سے معماروں کا مستقبل وابستہ تھا۔ اسلیئے خدا سے دعا کرتی رہتی کہ مجھےسب کے ساتھ انصاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ زندگی کے سب سے بڑے صدمے اور پریشانی کے باوجود میں نے پڑھانے کے سلسلے کو جاری رکھا اور پوری محنت اور لگن سے فرائض سر انجام دیتی رہی۔

سوال: ٹرسٹ بنانے کا خیال کب اور کیوں آیا؟ کام کا آغاز کب شروع کیا؟ ٹرسٹ رجسٹرڈ کب ہوا؟

حبیب کی زندگی میں ہی میں نے کچھ این جی اوز کی فنڈ ریزنگ کیلئے کام کیا۔ تقاریب میں بچوں کو بھی ساتھ لے جایا کرتی۔ ایک تقریب سے واپسی پر حبیب نے مجھ سے کہا کہ این جی اوز کے فنکشنز میں مسکولر ڈاسٹرافی کے حوالے سے بات نہیں ہوتی۔ کیوں نہ ہم ایسی این جی او بنائیں جو صرف مسکولر ڈسٹرافی کے حوالے سے ہو۔ تینوں نے اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کردیا۔
محمدی کہتی ہیں میں نے حبیب سے وعدہ کیا کہ جلد اس سلسلے میں ہم کام کا آغاز کریں گے۔ حبیب ایم ڈی ہوپ کی بنیاد 9 جنوری 2020 کو حبیب کے جنم دن کے موقع پر اس کی وفات کے ڈیڑھ ماہ بعد رکھی گئی۔ ٹرسٹ کو 2020 میں ہی رجسٹرڈ کروا دیا گیا۔

سوال: حبیب ایم ڈی ہوپ ٹرسٹ کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟

حبیب ایم ڈی ہوپ کے قیام کا مقصد ڈسٹرافینز میں صرف ویل چیئرز تقسیم کرنا نہیں ہے۔ ایچ ایم ڈی ایچ مسکولر ڈسٹرافی پر ہونے والی تحقیق کیلئے فنڈز اکھٹے کرتی ہے، معاشرے میں آگہی کے ساتھ ساتھ مرض کی نشاندہی اور اسکے ساتھ جینے کے طریقے بھی سکھاتی ہے۔
ڈسٹرافینز کیلئے نیروکنڈکشن اور ڈی این اے ٹیسٹ انتہائی اہم ہیں کیونکہ انکے بعد ہی اصل مرض کی نشاندہی اور شدت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جسکے بعد مرض سے نمٹنے اور اسکے ساتھ زندگی گزارنے کا مرحلہ آتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں آگہی کے فقدان اور غربت کی وجہ سے بیشتر ڈسٹرافینز ٹیسٹ نہیں کروا پاتے جسکی سے وجہ پیچیدگیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ ایچ ایم ڈی ایچ ڈسٹرافینز کو ان مہنگوں ترین ٹیسٹوں میں مدد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مرض کے ساتھ زندگی گزارنے کے طریقے بھی سکھاتی ہے۔
پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں مسکولر ڈسٹرافی پر خاصی تحقیق ہو رہی ہے۔ ایچ ایم ڈی ایچ وطن عزیز اور بین الاقوامی ایجنسیوں کے ساتھ ہر وقت رابطے میں رہتی ہے۔ انکے لیئے فنڈریزنگ کرتی ہے تاکہ تحقیق میں مزید پیش رفت ہو اور اس مسئلے کا جلد اور فوری حل تلاش کیا جاسکے۔

سوال: کرونا کے دنوں میں لوگوں تک کیسے رسائی حاصل کی؟ فند ریزنگ کس طرح کر رہی ہیں؟

کرونا کا سخت لاک ڈاؤن عام آدمی اور خصوصی افراد کی زندگی متاثر کرنے کا باعث بنا۔ لاک ڈاؤن کے دنوں میں ڈسٹرافینز تک رسائی، چیک اپ اور ٹیسٹ مشکل کام تھا۔ مشکلات کے باوجود میں اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹی، ایس او پیز کا خیال رکھتے ہوئے مریضوں تک رسائی حاصل کرتی انکی مشکلات دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی۔
انھوں نے کہا کہ میں اپنے خاندان، تعلیم کے شعبے سے وابستہ دوستوں، ڈسٹرافینز اور سوشل میڈیا پر اپنے فالورز کی شکر گزار ہوں جنھوں نے مشکل وقت میں ہر ممکن تعاون کیا اور سلسلے کو رکنے نہ دیا۔

سوال: کیا مسکولر ڈسٹرافی کے مریض کی خوراک نارمل انسانوں جیسی ہوتی ہے؟

عام انسانوں میں ایک جین پائی جاتی ہے جسے ڈسٹرافین کہا جاتا ہے اس کا کام مسلز (پٹھوں) کو بنانا ہوتا ہے مسکولر ڈسٹرافی کے مریضوں میں یہ جین بن نہیں پاتی جس کی وجہ سے ان میں پٹھوں کے بننے کا عمل رک جاتا ہے۔ عوام میں عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ شائد پروٹین اس مسئلے کا واحد حل ہے اسلیئے وہ مریض کو پروٹین سے بھر پور غذائیں دیتے ہیں۔
یہ تاثر غلط ہونے کے ساتھ ساتھ نقصاندہ بھی ہے۔ پروٹین کے ساتھ فائبر اور وٹامنز بھی انتہائی ضروری ہیں۔ ورنہ دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مریض کو وقفے کے ساتھ تھوڑی تھوڑی خوراک اور مختلف اقسام کے سوپ دینا ضروری ہے۔ بازاری اور تلی ہوئی چیزیں نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔ متوازن اور بھر پور غزائیں بیماری سے لڑنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

سوال: کیا ڈسٹرافینز عام لوگوں کی طرح اٹھایا بٹھایا جاسکتا ہے؟

ڈسٹرافینز میں مرض کی قسم اور شدت کے حساب سے مسائل مختلف ہوتے ہیں۔ حرام مغز کا سرک جانا اور پجن چیسٹ جیسے مسائل ڈسٹرافینز میں عام ہیں۔ اسلیئے مریض کو اٹھانے بٹھانے اور لٹانے میں احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔ اسکے لیئے باقاعدہ ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے جس سے بہت سے مسائل سے بچا جاسکتا ہے۔

سوال: مسکولر ڈسٹرافی کے مریض اور خاندان کی کاؤنسلنگ کتنی ضروری ہے؟

ڈسٹرافینز کو خودمختار اور بااختیار بنانے کیلئے خاندان اور مریض کی کاؤنسلنگ انتہائی ضروری ہے۔ خاندان کی کاؤنسلنگ اسلیئے ضروری ہے کہ وہ مرض کی شدت اور حساسیت کو سمجھتے ہوئے مریض کو خوشگوار ماحول فراہم کریں اور مریض کیلئے اس کی اہمیت اسلیئے بڑھ جاتی ہے کہ وہ بیماری کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے معاشرے کا مفید شہری ثابت ہوسکے۔

سوال: پاکستان میں مسکولر ڈسٹرافی کے مریضوں کی تعداد کتنی ہے؟ حکومت کو اس ضمن میں کن بنیادی اقدامات کی ضرورت ہے؟

محمدی نے جواب دیا کہ پاکستان میں خصوصی افراد کی درست تعداد کا اندازہ نہیں۔ لیکن ڈبلیو ایچ او کے سروے کے مطابق وطن عزیز میں خصوصی افراد کی تعداد پندرہ فیصد سے زیادہ ہے اس حساب سے تعداد لاکھوں میں بنتی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
جہاں تک مسائل کا تعلق ہے تو ڈسٹرافینز کو آگہی، قبولیت، صحت، تعلیم، رسائی اور روزگار جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ حکومت مثبت حکمت عملی کے تحت مسائل پر قابو پاسکتی ہے- مرض سے متعلق آگہی، کزن میریجز کی حوصلہ شکنی، ہیلتھ انشورنس یا صحت کارڈز کی فراہمی، مشترکہ تعلیمی نظام، بلڈنگ کوڈز، پبلک مقامات تک رسائی اور روزگار کی فراہمی سے حکومت باآسانی مسائل پر قابو پاسکتی ہے۔

سوال: آپ کے مشاغل کیا ہیں؟ فارغ اوقات میں کیا کرتی ہیں؟

کتاب بینی کا بچپن سے شوق ہے۔ فارغ ہوتے ہی کتاب اٹھا لینے کی عادت ہے اسکے علاوہ فارغ اوقات میں مسکولر ڈسٹرافی پر ہونے والی تحقیق کا مطالعہ کرتی ہوں ۔

سوال: کھانا بنانے میں کتنی مہارت رکھتی ہیں؟ کیا کیا بنا لیتی ہیں؟

میں اپنے آپ کو بہترین کک قرار دیتی ہوں ہر قسم کے دیسی، چائنیز، لبنانی اور کانٹینینٹل کھانے بنا لیتی ہوں ۔

سوال: مستقبل میں کیا کرنا چاہتی ہیں؟

خصوصی افراد کو ملک اور قوم کیلئے کارآمد بنانا چاہتی ہوں ۔ خصوصی افراد کے حوالے سے معاشرے میں پائے جانے والے ترس کے کلچر کا خاتمہ چاہتی ہوں ۔ ایک ایسا ری ہیبلیٹیشن سینٹر قائم کرنا چاہتی ہوں جہاں ڈسٹرافینز کو آگہی اور علاج کی مکمل سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ مسکولر ڈسٹرافی کا علاج پاکستان سے دریافت کرنے کی خواہش مند ہوں اس مقصد کیلئے تحقیقاتی اداروں کی بھر پور مدد کرنا چاہتی ہوں ۔محمدی کہتی ہیں کہ خواہش ہے کہ دنیا مجھے نام کے بجائے کام سے یاد رکھے۔

سوال: مسکولر ڈسٹرافی میں مبتلا افراد کے والدین کو کیا پیغام دینا چاہیں گیں؟

مسکولر ڈسٹرافی ایک بیماری ہے والدین کے گناہوں کا نتیجہ یا خدا کا دیا کوئی عذاب نہیں۔ اسے مرض تصور کرتے ہوئے اسکا مقابلہ کرنا ہوگا اور اسے شکست دینی ہوگی۔ خواندہ والدین مرض پر تحیق کرتے ہوئے بچے کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں جبکہ ناخواندہ افراد ڈاکٹرز کی ہدایت پر عمل کریں۔

Comments are closed.