پاکستان میں روزانہ 11 خواتین، 8 بچے جنسی زیادتی کا شکار بنتے ہیں

فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد(ویب ڈیسک) سال 2020 کے دوران پاکستان کے سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر میں گھروں سے اور نصف عملے سےکام کیا گیااس کے باوجود خواتین کے خلاف جنسی زیادتی، ہراسانی اور سائبر جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے.

سال 2020 میں خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کے واقعات مہینوں خبروں میں موجود رہے۔ ان میں موٹروے ریپ کیس سب سے اہم ہے جس میں لاہور سیالکوٹ موٹروے پر خاتون کو دو ملزمان نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

اس حوالے سے اردو نیوز نے سرکاری اعداد وشمار کے ساتھ رپورٹ کیا ہے کہ پاکستان میں اس وقت یومیہ 11 خواتین جنسی زیادتی کا شکار ہو رہی ہیں۔ یہ تعداد پولیس اور دیگر اداروں کے پاس درج شکایات سے اخذ کی گئی ہے۔

ایسے مقدمات کے بارے میں لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2015 سے اب تک مجموعی طور پر جنسی زیادتی کے 22 ہزار 37 مقدمات درج ہوئے جن میں سے چار ہزار 60 مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں مقدمات درج ہونے کے باوجود اب تک 77 مجرموں کو سزائیں ہوئیں اور صرف 18 فیصد کیسز پراسیکیوشن کی سطح تک پہنچے ہیں۔

رپورٹ میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن ثوبیہ شاہ کہتی ہیں کہ سال 2020 میں جنسی تشدد، گینگ ریپ اور کام کی جگہ پر ہراسانی کے ساتھ ساتھ کم عمری کی شادی کے واقعات بھی اضافہ ہوا ہے۔

ثوبیہ شاہ نے کہا کہ ایسے واقعات کا ڈیٹا نامکمل ہے کیونکہ بہت سارے کیسز تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ لہٰذا نہ تو این جی اوز کا ڈیٹا سو فیصد درست ہے اور نہ ہی سرکاری اعداد و شمار حقائق کی درست نشاندہی کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جنسی جرائم اور ہراسانی سے متعلق قوانین موجود ہیں اور حکومتی سطح پر مزید قانون سازی بھی ہوئی ہے لیکن مسئلہ ان قوانین کے بارے میں آگاہی اور ان پر عمل در آمد کا ہے۔

گزشتہ سال یعنی 2020 میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کا بیشتر وقت آن لائن گزرا جس کی وجہ سے ملک میں سائبر ہراسانی کے رجحان میں اضافہ ہوا۔

ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن کی سائبر ہراسانی کے حوالے سے قائم ہیلپ لائن پر سال 2020 میں مجموعی طور پر 3246 شکایات آئیں جن میں آن لائن کے علاوہ گھریلو تشدد کی شکایات بھی درج کرائی گئیں۔

ڈیجیٹل رائٹس کی سربراہ نگہت داد کے مطابق ہیلپ لائن پر سائبر ہراسانی کی شکایات میں 68 فیصد خواتین تھیں۔ لاک ڈاون میں سائبر ہراسانی کے رجحان میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ ان دنوں میں شکایت کی شرح 189 فیصد بڑھی۔

رپورٹ کے مطابق نگہت داد نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ وزارت انسانی حقوق اور فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی قوانین کو فعال اور تحقیقات کے عمل کو تیز کریں تاکہ سائبر ہراسانی کا شکار خواتین کو جلد از جلد انصاف فراہم کیا جا سکے۔

رپورٹ میں وفاقی وزارت انسانی حقوق کی خواتین پر تشدد کے حوالے سے ایک رپورٹ کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا ہے اور پنجاب، سندھ، کے پی اور بلوچستان میں خواتین پر گھریلو تشدد کے کیسز سامنے آئے۔

اس دوران کراچی ہیلپ لائن پر 948 شکایات موصول ہوئیں۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں صرف مارچ میں 399 خواتین کے قتل کے کیسز سامنے آئے۔ پنچاب میں گھریلو تشدد کی 144 شکایات کا اندراج ہوا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پچاس فیصد خواتین نے جاننے کے باوجود شکایات درج کروانے کے بجائے خاموشی اختیار کی۔ کم آمدن اور مالی وسائل نہ ہونے سے گھریلو تشدد میں زیادہ اضافہ ہوا۔

بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ساحل کے مطابق سال 2020 کے پہلے چھ ماہ میں یومیہ 8 بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے رہے۔ باقی چھ ماہ کے اعداد و شمار ابھی تک مرتب نہیں کیے جا سکے۔

ساحل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران روزانہ آٹھ سے زائد بچے استحصال کا نشانہ بنے، جس میں سے 785 کم سن لڑکیاں اور 704 لڑکے شامل ہیں۔

مجموعی اعداد و شمار کے مطابق ان کیسز میں 53 فیصد لڑکیاں جبکہ 47 فیصد لڑکے استحصال کا شکار بنے۔

وفاقی سطح پر خاتون محتسب برائے جنسی ہراسانی کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2020 میں کام کی جگہ و دفاتر وغیرہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کی 445 شکایات آئیں۔ ان میں 15 پشاور جبکہ 27 کراچی سے تھیں۔

رپورٹ کے مطابق وفاقی محتسب 60 دنوں میں فیصلہ کرنے کی پابند ہیں اس لیے 62 کیسز ہی ان کے پاس زیر التوا ہیں جبکہ باقی مقدمات نمٹا دیے گئے ہیں۔

دوسری طرف سال 2020 میں خواتین اور بچوں کو تحفظ دینے اور ان کے خلاف جرائم کی سرکوبی کے لیے متعدد قوانین بھی بنائے گیے۔

وزارت قانون کے مطابق سال 2020 میں ’لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی ایکٹ 2020‘بھی منظور کیا گیا جو خواتین اور بچوں کو فوجداری مقدمات میں مالی اور قانونی امداد فراہم کرے گا۔

جنسی زیادتی کے ملزمان کو سخت سے سخت سزاوں اور جلد از جلد مقدمات نمٹانے کے لیے ایک اہم قدم ’اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) آرڈیننس 2020‘ بھی نافذ کیا گیا ہے۔

اس آرڈیننس کے ذریعے عصمت دری اور جنسی زیادتی جیسے جرائم کے خلاف خواتین کو فوری انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکے گی۔ اس مقصد کے لیے خصوصی عدالتوں اور خصوصی تفتیشی ٹیموں کا قیام عمل میں لایا گیا.

اس آرڈینینس کے تحت ریپ کی تعریف میں بھی توسیع کی گئی ہے اور سابق مقدمات کی روشنی میں ابہام دور کیا گیا ہے۔ اسی طرح جنسی زیادتی کے ملزمان کو نامرد بنایا جا سکے گا تاکہ قانونی عمل واضح ہو سکے۔

Comments are closed.