پانچ سنچریاں بنانے والے انٹرنیشنل ویل چیئر پلیئر ساجد علی عباسی

ثاقب لقمان قریشی

(پاکستان ویل چیئر کرکٹ ٹیم کے نائب کپتان ساجد علی عباسی کا انٹر ویو)
نام: ساجد علی عباسی
رہائش: ابھاڑو (ضلع گھوٹکی)
تعلیم: بی-اے
عہدے:1۔ جنرل سیکرٹری پاکستان ویل چیئر کرکٹ کونسل 2۔ نائب کپتان پاکستان ویل چیئر کرکٹ ٹیم

خاندانی پس منظر:

والد صاحب فوجی فرٹیلائزر میں ملازم تھے۔ وفات 2001 میں ہوئی۔ خاندان دس بھائی بہنوں پر مشتمل ہے۔ تمام شادی شدہ ہیں اور خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ایک بھائی والد صاحب کی جگہ ملازمت کر رہا ہے، ایک فاطمہ فرٹیلائزر میں ملازم، ایک مکینک ہےاور ایک مزدوری کرتا ہے۔
ساجد علی عباسی کی، زمینی حقائق ڈاٹ کام سے ہونے والی گفتگو یہ رہی.

سوال: معذوری کا شکار کیسے ہوئے؟

والدین کے مطابق پانچ سال کی عمر میں تیز بخار ہوا۔ فوری طور پر ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔ ڈاکٹر نے ایک انجیکشن لگایا جس کے لگتے ہی ٹانگوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔علاج کا سلسلہ 15 سے 20 سال کی عمر تک جاری رہا۔2001 میں والد صاحب کی وفات ہوئی جس کے بعد مزید علاج ممکن نہ ہوا۔

سوال: بچپن کیسا گزرا؟

لمبے عرصے تک علاج چلتا رہا اسلیئے بچپن سفر میں ہی گزرا۔شرارتیں کرنا چاہتے تھے لیکن ہر شیطانی کے بعد لوگ ایسے القابات سے نوازتے تھے کہ الٹی سیدھی حرکت سے ڈر لگتا تھا۔ کرکٹ شروع ہی سے پسندیدہ ترین کھیل تھا۔ جب کبھی پاکستان انڈیا سے ہار جایا کرتا تو بہت غصہ آتا اور دل کرتا کہ کسی طرح میچ کا حصہ بن کر حساب برابر کر دوں۔

سوال: ابتدائی تعلیم میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

غربت اور تنگ دستی کی وجہ سےپرائیویٹ سکول سے تعلیم دلوانا والدین کیلئے ناممکن تھا – نزدیک ترین سرکاری سکول میں داخلہ کروا دیا گیا۔ یہ سکول بھی گھر سے تین کلو میٹر دور تھا۔ ویل چیئر اور بیساکھیوں کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے بڑے بھائی گود یا کندھوں پر اٹھا کر سکول لے جایا کرتے تھے۔ سہولیات کے فقدان کی وجہ سے سکول جانا کسی محاذسے کم نہ تھا۔

سوال: میٹرک کے بعد پڑھائی کا سلسلہ کیوں منقطع ہوگیا؟

غربت اور معاشی بدحالی کا یہ عالم تھا کہ ساجد اور انکے چھوٹے بھائی کتابوں کے ایک ہی سیٹ سے پڑھا کرتے تھے۔ساجد کتابیں چھوٹے بھائی کے حوالے کر دیا کرتے تھے تاکہ اسے کوئی کچھ نہ کہے اور کتابیں نہ ہونے کی وجہ سے خود سزا کا سامنا کرتے ۔ انہی وجوہات کی وجہ سے میٹرک کے بعد تعلیمی سلسلے کو منقطع کرنا پڑا۔ گھر والوں کا ہاتھ بٹانے کیلئے مختلف مزدوریاں بھی اختیارکرنا پڑیں۔ مزدوری کی معمولی سی رقم کا کچھ حصہ والدین کے ہاتھ میں رکھ دیتے باقی سے چھوٹے بھائی بہنوں کی فیس ادا کر دیا کرتے تھے۔

سوال: پنجاب میں کتنا عرصہ رہے؟

والد صاحب کی پنجاب ٹرانسفر کی وجہ سے تین سال بہاول نگر اور ایک سال لاہور میں گزارا۔ پڑھائی کے منقطع سلسلے کو بڑھاتے ہوئےہومیوپیتھی کا تین سالہ کورس اور آئی ٹی میں ڈپلومہ بھی کیا۔ چار سال کے بعد والد کی ٹرانسفر دوبارہ سندھ کر دی گئی جسکی وجہ سے پورا خاندان ایک بار پھر سندھ منتقل ہوگیا۔

سوال: اب تک کتنی دکانوں پر کام کر چکے ہیں؟

غربت کے ستائے ساجد نے عملی زندگی کا آغاز ایک پی-سی-او سے کیا۔ موبائل فون کمپنیوں کے آ جانے کے بعد پی-سی-او کا کام بہت کم رہ گیا۔ جس کی وجہ سے ملازمت سے نکال دیا گیا۔ دوسری نوکری پکوڑوں اور سموسوں کی دکان میں کی۔ ایک دفعہ ایک عزیز اس دکان سے پکوڑے ، سموسے لینے کیلئے آئے۔ ساجد کو دیکھا تو دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ساتھ لے گئے اور ایک کمپیوٹر کی دکان پر بٹھا دیا۔

سوال: کرکٹ کا شوق کیسے پیدا ہوا؟

کرکٹ کا جنون بچپن ہی سے تھا۔ بچوں کو کھیلتا دیکھ کر ساجد کا دل بھی کرتا کہ یہ میدان میں اتریں اور خوب چھکے چوکے لگائیں۔ شوق کو دیکھتے ہوئے والد صاحب نے بیٹ اور بال دلا دیا۔ بیٹ اور بال ہاتھ آتے ہی گلی میں نکل کر کھیلنا شروع کردیا اور زمین پر بیٹھے بیٹھے چھکے اور چوکے لگانا شروع کر دیئے۔ بیساکھیاں اور ویل چیئر نہ ہونے کی وجہ کپڑے مٹی میں لت پت ہوجایا کرتے تھے، گھر پہنچنے پر بڑی بہنوں سے خوب ڈانٹ پڑا کرتی تھی۔

سوال: کرکٹ ٹیم میں انٹری کیسے ہوئی؟

پاکستان ویل چیئر کرکٹ کونسل نے 2016 میں پورے میں کھلاڑیوں کی سیلکشن کیلئے کیمپس لگائے۔ گھوٹکی کے مشہور سماجی کارکن در محمد ساجد کو ٹرائل کرانے کیلئے لے گئے۔ ساجد کی زبردست پرفارنامنس کو دیکھتے ہوئے انھیں فوری طور پر ٹیم میں رکھ لیا گیا۔

سوال: ایشیاء کپ کتنی ٹیمز کے مابین کھیلا گیا؟ فائنل کس ٹیم کے ساتھ تھا؟ آپ کی پرفارنامنس کیسی رہی؟

2019 کا ایشیاء کپ پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، ملائیشاء اور نیپال کے درمیان کھیلا گیا۔ کپ کے تمام میچز میں ساجد نے پچاس سے ذیادہ سکور کیئے۔ فائنل انڈیا کے ساتھ کھیلا گیا جس میں ساجد نےچوراسی سکور کیا۔

سوال: ایشیئن چیمپئن بننے پر ملک اور گاؤں میں کیسا استقبال کیا گیا؟

ایشیئن چیمپیئن بننے کے بعد وطن واپس لوٹے تو جیسے دنیا ہی بدل گئی ۔ ائرپورٹ پر استقبال کیلئے لوگوں کا ہجوم کھڑا تھا۔ پھولوں کی پتیاں برسائی جارہی رہی تھیں، آٹوگراف کیلئے دھکم پیل ہورہی تھی۔ گاؤں پہنچنےپر لوگ کاندھوں پر اٹھا کر گھر تک لے کر آئے۔ سارے راستے قومی ترانے گاتے رہے۔پسماندہ علاقے کا یہ غریب نوجوان زیرو سے ہیرو بن گیا۔ جس پر یہ خدا کا شکر گزار ہے۔

سوال: بطور کھلاڑی اب تک آپ کی پرفارنامنس کیسی رہی ہے؟

پچاس سے زائد میچز کھیل چکے ہیں، دو بین الاقوامی دورے بھی کرچکے ہیں۔ پانچ سنچریوں اور 15 نصف سنچریوں کے ساتھ قومی ٹیم کے نمایاں کھلاڑی اور نائب کپتان ہیں۔

سوال: وزیر تعلیم نےآپ کو سرکاری نوکری کیوں عنایت کی؟ کیا نوکری اور کرکٹ کےعلاوہ اور کوئی کام بھی کرتے ہیں؟

ساجد کی بہترین پرفارنامنس کو دیکھتے ہوئے اس وقت کےوزیرتعلیم جام مہتاب خان ڈہر نے ساجد کی خدمات کو سراہتے ہوئے انھیں میونسیپل کارپوریشن میں ہیلپر کی نوکری دینے کا اعلان کیا۔ نوکری کچی ہے لیکن ابھی تک جاری ہے۔ اسکے علاوہ پارٹ ٹائم میں ایک سٹور میں کیشئر کے طور پر بھی فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

سوال: کھلاڑیوں کی کوچنگ اور ٹریننگ کس طرح کی جاتی ہے؟

کھلاڑی وٹس ایپ، زوم اور سکائپ کے ذریعے کوچ سے رابطے میں رہتے ہیں۔ اپنے کھیل کی ویڈیوز بنا کر بھیجتے رہتے ہیں۔ کوچ کپتان اور سینئر کھلاڑی ویڈیوز کا جائزہ لیتےہوئےکھلاڑیوں کو رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ بڑے اور بین لاقوامی ٹورنامنٹس سے پہلے کوچنگ کیمپس لگتے ہیں جہاں کھلاڑیوں کو باقاعدہ تربیت فراہم کی جاتی ہے۔

سوال: فٹ رہنے کیلئے کیا کرتے ہیں؟

روزانہ ایک گھنٹہ ورزش کرتے ہیں، میٹھی اور تلی ہوئی چیزوں کا استعمال کم سے کم کرتے ہیں، خشک میوہ جات کا باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں۔ بیگم کو اپنا محسن قرار دیتے ہیں جو اس سارے عمل میں انکا بھر پور ساتھ دیتی ہیں۔

سوال: کیا پاکستان ویل چیئر کرکٹ کونسل کھلاڑیوں کو ماہانہ تنخواہ بھی دیتی ہے؟

پاکستان ویل چیئر کرکٹ کونسل ڈونرز اور سپانسرز کی مدد سے چل رہی ہے۔ انعامات کی رقم پرفارنامنس اور عہدوں کے مطابق کھلاڑیوں میں تقسیم کر دی جاتی ہے۔ اگر حکومت اور پی-سی-بی ،کونسل کا مستقل بجٹ مختص کردے تو ماہانہ تنخواہ کا خواب پورا ہوسکتا ہے جس سے کھلاڑیوں کی مزید حوصلہ افزائی ہوسکتی ہے۔

سوال: ریٹائر ہونے کے بعد بھی ویل چیئر کرکٹ کی خدمت کرنا چاہیں گے؟

کھلاڑی کا کیرئیر مختصر ہوتا ہےاور اسے جوانی میں ہی ریٹائر ہونا پڑتا ہے۔ ریٹائر ہونے کے بعد بطور کوچ ٹیم کی خدمت کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگر موقع نہیں بھی ملاتو اکیڈمی بنا کر نوجوان کھلاڑیوں کو ٹرینگا دیا کریں گے۔

سوال: پاکستان ویل چیئر کرکٹ کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں؟

کرکٹ وطن عزیز کے نوجوانوں کا پسندیدہ کھیل ہے اسی طرح ویل چیئر کرکٹ خصوصی افراد میں مقبول ہے۔ ویل چیئر کرکٹ کی انٹرنیشنل کونسل ویل چیئر کرکٹ کے ورلڈ کپ کے انعقاد کا بھی ارادہ رکھتی ہے جس سے منفرد کھیل کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا۔ جب تک کرکٹ کا شمار دنیا کے مقبول ترین کھیلوں میں ہوتا رہے گا اس وقت تک ویل چیئر کرکٹ بھی افراد باہم معذوری میں مقبول رہے گا۔

سوال: شادی کب اور کیسے ہوئی؟

شادی والدہ صاحبہ کی پسند سے 2014 میں ہوئی۔ 2019 میں اللہ پاک نے خوبصورت سی بیٹی عنایت کی جس کا نام زنیرہ نور ہے۔ اپنی زندگی سے بہت مطمئن ہیں۔ شریک حیات کو اپنا سب سے اچھا دوست اور محسن قرار دیتے ہیں ۔

سوال : کھانے میں کیا پسند کرتے ہیں؟

زندگی میں اتنی تلخیاں اور دشواریاں دیکھی ہیں کہ ذاتی پسند ختم ہوگئی ہے۔ گھر کی بنی ہر چیز شوق سے کھاتے ہیں۔ ساگ کو اپنی پسندیدہ ترین ڈش قرار دیتے ہیں۔

سوال: فارغ وقت میں کیا کرتے ہیں؟

فارغ اوقات بچوں اور والدہ محترمہ کے ساتھ گزارنا پسند کرتے ہیں۔ کوشش کرتے ہیں کہ صبح کا ناشتہ اور رات کا کھانا والدہ کے ساتھ کھاتے ہیں۔ اسکے علاوہ فلمیں دیکھنا بہت پسند ہیں۔ ڈائینوسار پر بنی فلمیں اور ڈاکو مینٹریز اتنی پسند ہیں کہ متعدد بار دیکھ چکے ہیں۔

سوال: نوجوان کھلاڑیوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟

نوجوان کھلاڑی اپنے اندر چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو تلاش کرنے کی کوشش کریں۔اپنے آپ کو کسی سے کم نہ سمجھیں۔ خدا پر بھروسہ رکھیں جس نے کوئی چیز دنیا میں بے مقصد اور بے معنی پیدا نہیں کی ۔ پریکٹس کریں ، کھیل کی تکنیک کو سمجھنے کی کوشش کریں اور پرانے کھلاڑیوں سے مشورہ کرتے رہیں تو کبھی ناکام نہیں ہونگیں۔

Comments are closed.