وزیراعظم ڈالرز نہیں، انسانوں سے محبت کریں


افتخار احمد ( جرمنی)

اسلام آباد میں آج روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ پروگرام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر سمندر پار پاکستانیوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میں بیس سال کے عرصے سے کہہ رہا ہوں کہ کہ سمندرپار پاکستانی ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہیں وزیراعظم کی یہ تعریف اوورسیز پاکستانیوں کی نہیں بلکہ ان ڈالروں کی ہے جن کی وجہ سے نہ صرف آج حکومت تھوڑی بہت مستحکم ہے بلکہ لڑکھڑاتی معشیت بھی کسی نہ کسی طرح محو پرواز ہے.

وزیراعظم عمران خان کو اگر سمندر پار پاکستانیوں سے تھوڑی سی بھی محبت ہوتی تو وہ ان کی چیخ وپکار کو سن رہے ہوتے جن کی آواز سفارتخانوں اور قونصل خانوں میں یکم فروری سے اب تک مسلسل سنائی دے رہی ہیں ، وجہ اچانک مینوئل ویزے پر پابندی عائد کرنا ہے اب جس جرمن شہریت رکھنے والے نے پاکستان جانا ہے اسے آن لائن ویزہ ہی اپلائی کرنا ہے جسے ارجنٹ ملنے میں کم از کم 72 گھنٹے درکار ہیں.

ایمر جینسی میں وطن عزیز نہ جانے والوں کی حالت زار گزشتہ دنوں قونصلیٹ جنرل فرینکفرٹ میں اس وقت نظر آئی جب ایک نوجوان اپنے باپ کی میت کے ساتھ پاکستان جانے کے لئے حصول ویزہ کے لئے دوڑا پھر رہا تھا انجام کار حکومتی پالیسی کے مطابق بیٹا باپ کی تدفین اپنے ہاتھوں سے کرنے کی خواہش دل میں دبائے گھر واپس لوٹ گیا اور میت اکیلی پاکستان بجھوا دی گئی.

دوسرا واقعہ اس وقت سامنے آیا جب ایک بیٹی پاکستان میں اپنے باپ کی زندگی اور موت کی کشمکش کی خبر ملنے پر ویزہ لینے کے لئے ماہی بے آب کی طرح قونصلیٹ میں تڑپتی رہی مگر سمندر پار قیمتی سرمایہ کے بارے میں نئی حکومتی پالیسی کے مطابق فوری مینوئل ویزہ حاصل کرنے سے نامراد لوٹی ، نہیں معلوم اب تک ایسے کتنے افسوسناک واقعات سامنے آ چکے ہیں اور کتنے آئیں گے.

حیرت ہے اس وزیراعظم پر جو سمندر پار پاکستانیوں کے ڈالر وصول ہونے پر بھنگڑے تو ڈال رہا ہے مگر ان کی مشکلات کو دور کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا ، جرمنی کی سطح پر کیمونٹی سفیر پاکستان ڈاکٹر محمد فیصل اور قونصل جنرل زاہد حسین صاحب کو مسلسل اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہی ہے مگر نہیں معلوم کہ ان کی آواز ابھی تک کیوں نہیں وزیر اعظم ہاؤس تک پہنچ رہی؟

کاش کہ وزیراعظم عمران خان صرف ڈالروں سے ہی نہیں انسانوں سے بھی محبت کرنا سیکھیں مہنگائی کے ماری پاکستانی عوام تو انہیں بدعائیں دیتی نظر آ رہی تھی اب بیرون ممالک کے سفارتخانوں کے باہر بھی لوگ ہاتھ اٹھائے نظر آنے لگے ۔

Comments are closed.