وزیراعظم صاحب ! کدھر گئیں آپ کی پولیس اصلاحات؟


محبوب الرحمان تنولی

پارلیمنٹ میں بلاول بھٹو زرداری تقریر کرتے اچانک جذباتی ہو گئے ۔وزیراعظم کو براہ راست گالی بک دی۔ قوت سماعت نے ششدر کردیا۔ سچ پوچھیں تو میرے رونگٹھے کھڑے تھے اور میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کوئی ایسا بھی کر سکتا ہے۔۔ ہمارے ہاں ردعمل بھی میرٹ پر نہیں ہوتا۔۔ گویا ایسا ہی ہوا۔۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ والوں نے کہا درست فرمایا ہے۔۔ مریم نواز کی گرفتاری پر بلاول طیش میں آ گئے تھے۔۔ مخالفین نے اس زبان کو لے کر بلاول بھٹو زرداری کے مستقبل کی سیاست پر سوالیہ نشان لگائے ۔۔مزید تبصروں کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ موضوع یہ نہیں بلکہ پولیس ہے۔

گزشتہ دو ہفتوں سے پولیس کے ہاتھوں رحیم یار خان میں اے ٹی ایم والے ذہنی مریض کی ہلاکت۔ تھانوں میں بے رحمانہ تشدد۔ عورت کی مارپیٹ۔دیکھ کر پوری قوم غصے میں ہے۔۔ سب بلاول بھٹو اتنے طاقت ور ہوں تو یقینا آئی جی پنجاب کےلئے آج وہی زبان استعمال کرنا بنتی ہے جو کہ بلاول بھٹوزرداری نے وزیراعظم کےلئے استعمال کی تھی۔۔خبر ہے کہ ملزمان پر پولیس تشدد کی ویڈیوز منظر عام پر آ جانے اور پولیس کے انسانیت سوزسلوک اور بد ترین رویہ کو لگام دینے کی بجائے۔۔ صاحب اختیار نے تھانوں میں موبائل فون لے جانے پر پابندی لگا دی ہے۔۔یہ خبر ابھی زیر گردش ہی تھی کہ صدر نیشنل پریس کلب شکیل قرار نے بتایا اسلام آباد پولیس کے آئی جی نے پہلے سے پابندی لگا رکھی ہے۔

یعنی جرم کو روکنے کی بجائے ۔ جرم پر پردہ ڈال دو۔
سچ پوچھیں تو مجھے رہ رہ کر غصہ اپنے وزیراعظم عمران خان پر آتاہے۔اس شخص نے ہمیں سبز باغ دکھا کر مسند اقتدار حاصل کی۔۔ جتنے وعدے کئے سب ادھورے پڑے ہیں۔۔پولیس کو بدلنے اور بالخصوص پنجاب پولیس میں اصلاحات اور تھانہ کلچر بدلنے کے بلند وباغ دعوے کئے گئے تھے۔۔پنجاب پولیس نے اوپر تلے اپنا آپ دکھایا ہے تو سب منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔۔ بزدار صاحب کو اب خیال آیا ہے کہ حراست کے دوران ہلاکت اور انسانوں پر جانوروں کی طرح تشدد کے مرتکب پولیس اہلکاروں کو ملازمت سے برطرف کردیا جائے۔

اب ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے مشورہ مانگا ہے یا حکم سنایا ہے۔۔وزیراعظم صاحب
آپ کے ترقیاتی کام ادھورے اور لاگتیں ڈبل ہو چکیں ہیں۔۔ بہانہ یہ ہے فنڈز نہیں ہیں۔۔ مہنگائی نے غریب آدمی کے منہ سے نوالہ تک چھین لیا۔۔ وجہ یہ ہے حکومت کنگلی ہے اخراجات پورے نہیں ہو رہے۔۔ایک طرف قرضوں کا رونا رو رہے ہیں اور دوسرے ہاتھ میں دیو قامت کشکول تھاما ہوا ہے۔۔وزیراعظم صاحب ۔۔ پولیس کی زبان اور ہاتھ کو غیر قانونی ،،لت ،، سے روکنا کس کا کام ہے؟ اور اس پر کتنی لاگت آتی ہے؟۔۔اپنے وسیم اکرم پلس کو اختیار دیں۔۔ہر غیر قانونی تشدد ، منفی رویہ، سائلوںسے بدزبانی کے مرتکب پولیس اہلکار کو معطل کرکے ویلیاں کھلانے کی بجائے سید ھا ملازمت سے برطرف کرنا شروع کریں ۔۔ ایک مہینہ میں سسٹم درست ہو جائے گا۔

جب آپ ایکشن کے نام پر پولیس افسر یا ملازم کو معطل کرکے تین مہینے ویلیاں گھر پر کھلاہیں گے اور چوتھے مہینے ان کی مرضی کی پوسٹنگ دے دیں گے تو پھر پولیس والوں کے مزاج برہم کیوں نہیں ہوں گے۔۔غضب خدا کا پولیس کا مطلب عوام کے سہولت کار بننا ہوتا ہے لیکن پتہ نی یہ کس مٹی سے بنے ہوئے ہیں۔۔ یہ وردی پہنتے ہیں ۔۔سانپ کی طرح پھنکارنے لگتے ہیں۔

اگر کوئی اصول پسند افسر یا قانون کے مطابق چلنے والا افسر یا اہلکار ہے تو وہ بھی اس سسٹم میں برابرکے ذمہ دار ہیں۔جن کے نیچے آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے اور صاحب اپنے کمرے میں بیٹھ کر ۔۔فائلیں کھنگال کر ۔۔ اٹھتے ہیں نماز پڑتے ہیں اور گھر چلے جاتے ہیں۔۔ کیا یہ ایمانداری ہے؟ آپ کی ناک کے نیچے تھانوں میں بیٹھے محررز کی اکثریت سودے بازیاں کرتی ہے۔۔ آئی او خود الٹے راستے دکھا کر پیسے بٹورنے کے ذرائع بناتے ہیں۔۔کسی جرم کی ایف آئی آر سفارشیں کروا کر بھی نہیں کٹتی وہ اس لئے کہ کیس مشکل ہوتا ہے وہ عدالتوں میں دھکے کھانے کی بجائے وہیں فائل کلوز کرنے پر زور دیتے ہیں۔۔ جہاں پیسے بنانے ہوں سڑک چلتے بندے کو پکڑ لیتے ہیں۔۔ چلوتھانے چلو۔۔ پھر تھانے پہنچ کر، پرچہ کاٹنے ۔ دہشتگردی کی دفعات لگانے سمیت قانون کا تحفظ دینے کی بجائے پیدا گیری کےلئے معقول دفعات کے نام بتا بتا کر سائلین کو بلیک میل کرتے ہیں۔۔ جھوٹی ایف آئی آرز بھی کٹ جاتی ہیں۔

عام شریف شہری سوچ کر پاگل ہو جاتاہے کہ پولیس والے کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ان میں اخلاقیات نام کی چیز باقی نہیں ہوتی۔۔وردی پہنتے ہی خود کو نہ جانے کیا سمجھنے لگتے ہیں۔۔ کوئی ذمہ دارحکومتی شخصیت یا پولیس حکام میں سے بھیس بدل کر کبھی تھانوں کارخ کریں تو آپ کو علم ہو کہ کتنے انسانیت سے عاری لوگ کرسیوں پربراجمان ہوتے ہیں۔۔سب نہیں لیکن بیشتر کے چہروں سے رعونت ٹپکتی نظر آتی ہے۔۔ ان کو سائل جو بھی بات بتائے گا۔۔ شکایت درج کرائے گا یہ اس کا الٹا مطلب نکال کر درخواست گزار کی حوصلہ شکنی کریں گے۔۔تھانہ شہزاد ٹاون میں فرشتہ قتل کیس کا سارا واقعہ اور پولیس رویہ عام شہریوں کو بھی یاد ہے۔

کیا پولیس کی تربیت اس مجرمانہ انداز میں کی جاتی ہے ؟ کیا ان کو اخلاق اور قانون کے دائرے میں رہ کر بات کرنے سے کسی نے روکا ہوتاہے؟
کیا ان کے اپنے بیوی بچے۔ بچیاں ، ماں باپ نہیں ہوتے ؟۔۔مجھے تو ایسے انسان نما بھیڑیوں کاذکرکرتے ہیں بھی ان کے وجود سے گھن آتی ہے جن کو لٹے پٹے افراد کے تھانے میں پہنچنے پر ان سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہوتی۔۔بہت معقول تنخواہیں لے کر بھی سڑکوں پر بھیکاریوں کی طرح لفٹ لینے کھڑے ہوتے ہیں۔۔میںخود کبھی ان کو اس لئے لفٹ دے دیتا تھا کہ یہ بے چارے بہت لمبی ڈیوٹیاں کرتے ہیں لیکن ان کو سرکار کنونس نہیں دیتی۔۔

ایک دن ترامڑی چوک میں بارش ہو رہی تھی ایک پولیس والے نے بھیگتے ہوئے مجھ سے لفٹ کی درخواست کی ۔۔ میں نے حسب سابق بٹھا لیاساتھ۔۔ جب راول ڈیم چوک میں میری گاڑی کی فرنٹ سیٹ سے اترا تو اس نے ایک نوجوان کو دیکھتے ہی موٹی سے گالی بکی اور ہاتھ اس کے گریبان میں ڈال کرگھیٹتا ہوا ایک طرف لے گیا۔۔ میں یہ منظر دیکھ کر حیران و پریشان ہو گیا۔۔ تھوڑی دیر پہلے لفٹ لیتے اس کا رویہ کیسا تھا اور ابھی ایک دم وحشی بن گیا ہے۔۔۔تھانے میں پہنچنے والے ملزمان کےلئے تو پہلی عدالت ان کی اپنی لگتی ہے۔جرم پکڑنے کی ذمہ داری پر مامور بیشتر پولیس والے پیسے بنانے کےلئے خود لوگوں کو راستے بتاتے ہیں اور بدلے میں پیسے بٹورتے ہیں۔

خیبر پختونخواہ کی مثالی پولیس کا آنکھوں دیکھا حال تو میں خود بھی جانتا ہوں۔ جہاں تھانے کے ایک تفتیشی افسر نے مدعی پارٹی سے ہزاروں روپے لے کرملزم کے کھاتے میں کلاشنکوف ڈالی۔۔ ملزم پارٹی کے ساتھ آنے والوں سے یہ کہہ کر الگ سے پیسے لئے کہ میں پرانی کلاشنکوف ڈالوں گا جس سے کبھی فائر ہی نہیں ہوا۔۔اگلے دن ملزم پارٹی سے کہہ رہا تھاآپ لوگ میرے ساتھ پشاور جائیں آنے جانے کا خرچہ بھی آپ کا ہوگا۔۔رپورٹ میں لکھواہوں گا کہ اس اسلحہ سے فائر نہیں ہوا۔۔۔ اسکے آپ30ہزار روپے الگ سے دیں گے۔۔

اب آپ اندازہ لگائیں یہ وہ مثالی پولیس ہے جس کا عمران خان دنیا بھر میں شور مچاکر کہتے ہیں کہ میں نے پولیس کو درست کردیا ہے۔ ۔وزیراعلیٰ کے پی محمود خان سے کبھی کہو کسی تھانے میں بھیس بدل کر درخواست دے کر دکھائے۔۔ اسے لگ پتہ جائے گامثالی پولیس کا۔۔
حکمران شتر مرغ کی طرح زمین میں چونچ گھسا کر سمجھتے ہیں پولیس نظام درست ہو گیاہے حلانکہ یہ نظام ناقابل اصلاح ہو چکا ہے۔جب تک پولیس والا سائلین کا حقیقی خادم نہیں بنتا یہ نظام درست نہیں ہو سکتا۔۔جب آئی جی پولیس کالی بھیڑوں کو پکڑنے کی بجائے غیر قانونی تشدد کے واقعات پرپردہ پوشی کےلئے ویڈیو بنانے پر پابندی لگائیں گے توپھر نظام خاک درست ہو گا؟

وزیراعظم عمران خان، وزرائے اعلی ٰ اور دیگر ارباب اختیار جب تک پولیس رویہ کی درستگی کےلئے انقلابی سخت اقدامات نہیں کریں گے تب تک تھانیداروں ، محررز ، تفتیشیوں اور حصے اوپرتک پہچانے والوں کے مزاج درست نہیں ہوسکتے۔۔خدا نے کتنا مقدس پیشہ دیا ہے ان کے ہاتھ میں۔۔ انسانوں کے دکھ درد کامداوا کرنا۔۔ زخموں پر مریم رکھنا۔ روتے ہووں کے آنسو پونچھنا۔۔لیکن ان بدبختوں نے راہ نجات کے اس زریعہ کو ترک کرکے انسانوں کو ظلم کی چکی میں پیسنے ایسا بھیانک کام شروع کردیا ہے۔ پولیس کی اصلاح نہیں ہو سکتی تو پولیس کامحکمہ ہی ختم کر دیا جائے تاکہ کوئی تو سکھ کاسانس لے سکے اس جبر کے معاشرے میں۔

Comments are closed.