نیاسفر بخیر مشاہد ﷲ خان

عطا ء الحق قاسمی

سینیٹر مشاہد ﷲ خان اپنے نئے سفر پر روزانہ ہوگئے ہیں، آج شاید ان کے جسدِ خاکی کی تدفین ہوگی مگر یہ کون سی انوکھی بات ہے، آج تک کھربوں لوگ زیر زمین جا چکے ہیں لیکن ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو آج بھی ہمارے اتنے قریب ہیں کہ ہم ان کی دھیمے لہجے میں کی ہوئی باتیں بھی سن سکتے ہیں۔ مشاہد ﷲ خان انہی میں سے ایک ہیں، ان سے ذاتی ملاقات تو صرف تین مرتبہ ہوئی.

جن میں سے طویل ترین وہ انٹرویو یا گپ شپ تھی جو میں نے اور میرے ساتھیوں نے ’’کھوئے ہوئوں کی جستجو‘‘ کی پروگرام سیریز میں کی تھی لیکن سچ پوچھیں تو ان سے اصل ملاقاتیں ان کی بیباکانہ گفتگو کے حوالے ہی سے ہیں، جن کا انداز اتنا لطیف اور ظریفانہ ہوتا تھا کہ مخالف پارٹی کے ارکان بھی دل ہی دل میں اس کا لطف ضرور لیتے ہوں گے۔ ایک طویل عرصے کی علالت کے باوجود کیا پائیدار آواز تھی اور ان کی اردو کا لہجہ مجھے کچھ اور بھی اچھا لگتا تھا۔

اگر کوئی سمجھتا ہے کہ آج کے بعد ان کی آواز ہمیں سنائی نہیں دے گی اور حقیقی جمہوریت، انسانی بنیادی حقوق اور عوامی مسائل پر اب وہ خاموشی اختیار کرلیں گے تو یہ خوش فہمی کم لوگوں کو ہوگی۔ سب سے زیادہ گونج خاموشی کی ہوتی ہے، مگر اس سے ہٹ کر صدیوں پہلے سنائی دینے والی آوازیں آج تو کتابی صورتوں میں موجود ہیں، یہ ان دانشوروں کی آوازیں ہیں جنہوں نے انسانی تاریخ میں خون آشامی کم سے کم کرنے یا کوئی نیا نظریہ دینے کی کوشش کی۔

میں مشاہد ﷲ خان کو افلاطون، ارسطو، نیلسن منڈیلا، آئن اسٹائن، سارتر، کافکا، فرائیڈ، نیوٹن، مائوزے تنگ، کارل مارکس، چو این لائی، مولانا روم یا اس طرح کی کسی متنوع شخصیت سے تشبیہ نہیں دے رہا، بلکہ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے جو نام لئے ہیں ان میں ایک عرصے سے کئی مشاہد ﷲ خان ایسے ’’گمنام‘‘ لوگوں کی آوازیں پیچھے پیچھے چلی آرہی تھیں، یہ سفر آج بھی جاری ہے.

چنانچہ امریکہ اور اس کے حواری ملکوں کے علاوہ اس وقت دنیا کے بیسیوں ممالک جنت نظیر بن چکے ہیں مگر ابھی مجھے آپ کو ایک غیرحتمی بات بتانی ہے اور وہ یہ کہ سائنسدان وہ تمام آوازیں جمع کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں جو آج تک کرہ ارض پر سنائی دیں اور ہوائوں میں محفوظ رہ چکی ہیں، اگر اس میں کامیابی ہوتی ہے تو اگلا مرحلہ یہ ہے کہ ان آوازوں میں سے اس دور کی تاریخی شخصیتوں کی آوازیں الگ کی جا سکیں۔ اگرچہ یہ بات سائنس فکشن لگتی ہے مگر آج سے پہلے تو صرف الٰہ دین کا جن ہی ہوائوں میں اڑ سکتا تھا!

اب میں دوبارہ مشاہد ﷲ خان کی طرف آتا ہوں، میں کیا کروں، میں اداس نہیں ہو رہا، خان صاحب اسی طرح میرے سامنے ہنستے مسکراتے چہرے اور سیاسی گہرے چٹکلوں کے ساتھ موجود ہیں۔ ان کی زندگی میرے سامنے ہے، محنت، رزق حلال، بطور یونین لیڈر کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کی جنگ اور سب سے بڑھ کر اپنے سیاسی نظریات سے تاحیات مکمل وابستگی اور اس کے لئے ہر خطرے کا سامنا کرنے کو ہمہ وقت تیار!

میں غم زدہ تو ان لوگوں کے لئے ہوں جنہیں رزق حرام نے جنا اور جو رزق حرام کے لئے جیتے ہیں۔ ان کے دام مقرر ہیں اور پارٹی بدلنے کے اوقات بھی انہیں بروقت بتائے جاتے ہیں، اور ان احکامات کی بجا آوری وہ پوری ’’ایمانداری‘‘ سے کرتے ہیں۔ اب آپ ہی مجھے بتائیں کہ میں مشاہد ﷲ خان اور ان جیسے دوسرے صاحبان خیر کو تاقیامت زندہ لوگوں میں شمار کیوں نہ کروں؟

میں نے کالم کے درمیان میں مختلف شعبوں کے بڑے لوگوں کی ’’کاک ٹیل‘‘ سی بنا دی تھی، انہیں آپ خود ہی الگ الگ کرکے دیکھیں لیکن جو کاک ٹیل ہمارے میڈیا اور ہمارے دانشور طبقوں کی ہے وہ ’’لذت‘‘ میں سب سے جدا ہے۔ اول تو کچھ لوگ منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔ ان میں سے کچھ نے نہیں بھی ڈالی ہوئیں، کاش ڈالی ہوتیں، مگر انہی کے درمیان ایسے پاگل بھی تو موجود ہیں جو خطرات کے عین درمیان بھی کھڑے رہتے ہیں۔

کئی اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں، کچھ نے خود کو رضا کارانہ بے روزگار کر لیا ہے، تاہم یہاں یہ وضاحت کر دوں کہ ان کے جو کولیگ ان کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتے وہ ابن الوقت ہیں۔ ان کے اپنے نظریات ہیں اور ہر وہ شخص جس کے نظریات کسی لالچ یا ضمیر فروشی سے بالاہوں وہ میرے لئے محترم ہے۔ البتہ خود کو اپنی شاعری میں منصور حلاج قرار دینے والے، مقتل کی طرف دوڑ دوڑ کر جانے والے ظاہر کرتے ہیں.

ان دنوں ان کی شاعری پڑھ کردیکھ لیں، وہ آج کل بھی یہی کچھ کہہ رہے ہوں گے مگر شعر کی بے ثباتی زبان میں، بے ثباتی یوں کہ ’’منہ زبانی‘‘ یا نثر میں ایسی بات کہتے ہوئے ان کی زبانوں کو ’’دندل‘‘ پڑ جاتی ہے۔ چنانچہ فی الحال فیض، ندیم، جالب، فراز کو یاد کرتے رہیں۔ باقی رہا میرا محبوب سیاست دان مشاہد ﷲ خان تو وہ اپنے نئے سفر پر روزانہ ہو چکا ہے، جہاں اس کے استقبال کے لئے ہمارے مشاہیر پہلے سے موجود ہیں.
(بشکریہ روزنامہ جنگ)

Comments are closed.