میرشکیل الرحمان کی گرفتاری کیخلاف احتجاج

فریداحمد خان

نیب کی جانب سے جنگ جیوگروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن کی گرفتاری کو ایک ماہ سے زائد عرصہ ہوگیاہے جس کیخلاف جنگ اورجیو کے کارکنوں سمیت ذرائع ابلاغ کے دیگرحلقوں میں مسلسل احتجاج کیا جارہا ہے اورملک کے مختلف شہروں میں تواترکے ساتھ بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے جارہے ہیں جس میں مختلف صحا فتی رہنماؤں کے علاوہ سیاسی وسماجی رہنما اور کارکن بھی شرکت کر کے مطالبہ کررہے ہیں کہ میر شکیل الرحمن کوفوری طورپررہا اوران کیخلاف قائم مقدمہ ختم کیاجائے، احتجاجی مظاہرین اوررہنماؤں کے مطابق میرشکیل الرحمن کیخلاف یہ مقدمہ حکومت کی ایماء پربنایاگیا ہے تاکہ اپنے خلاف جاری تنقید کاراستہ روکا جاسکے، یادرہے کہ میرشکیل الرحمن کو اراضی سے متعلق ایک ایسے کیس میں گرفتارکیا گیا ہے جو35 سال پرانا ہے جس کے بارے میں نیب کاموقف یہ ہے کہ میرشکیل الرحمن نے جوہرٹاٰؤن لاہور میں اس وقت کے وزیراعلیٰ میاں نوازشریف کی مہربانی سے استثٰی لے کر ایک ایک کنال کے 54 پلاٹ حاصل کئے تھے ، جس کیلئے وزیراعلٰی میاں نوازشریف نے قانونی تقاضوں کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے میرشکیل الرحمن کواستثٰی دیا تھا۔

جنگ وجیو کے ایڈیٹرانچیف میرشکیل الرحمن کے وکیل اعتزاز احسن نے مقدمہ کے آغاز میں عدالت کے روبرو موقف اپنایا کہ اس معاملے میں کہیں بھی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، بلکہ یہ معاملہ محض دونجی افراد کے درمیان ایک کاروباری سودا ہے، جس میں نیب کیلئے مداخلت کرنے کاکوئی جواز ہے نہ اختیار، اس لئے ان کے موکل کی ضمانت منظورکی جائے ،تاہم احتساب عدالت نے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد ضمانت کی درخواست مستردکرتے ہو ئے میرشکیل الرحمن کو12 روزہ جسمانی ریمانڈ پرنیب کے حوالے کیا تھا اور ہدایت کی تھی کہ ریمانڈ کی مدت ختم ہونے کے بعد میرشکیل الرحمن کودوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے اورجب25 مارچ کو دوبارہ انہیں عدالت میں پیش کیا گیاتوبھی عدالت نے ضمانت کی درخواست منظور نہیں کی اور نیب کی استدعاپرانہیں مزید ریمانڈ پر اس کے حوالے کیا ۔ جس کے بعد سے اب تک ان کی ضمانت نہیں ہوسکی ۔

پاکستان کے سب سے بڑے میڈیاگروپ جنگ جیو گروپ کے ایڈیٹرانچیف میرشکیل الرحمن بلاشبہ ملک کی ایک بااثر ترین شخصیت ہیں ۔میرے نکتہ نظر کے مطابق اخباری صنعت میں لگ بھگ گزشتہ اڑھائی دہائیوں سے ان کا کوئی مدمقابل نہیں رہا،یعنی وہ اخباری صنعت کاسرخیل ہے اور صنعت سے متعلق تمام تنظیمی وسرکاری پالیسیوں میں ان کا ٹھوس کردار ہوتاہے۔ایسا نہیں کہ پاکستان میں کوئی دوسرا طاقتور میڈیا گروپ موجود ہی نہیں ، بلکہ آج بھی ہمارے ملک میں کئی بڑے میڈیاگروپ موجود اورکام کررہے ہیں جواثر ورسوخ کے حامل ہونے کے ساتھ اقتدار کے ایوانوں تک رسائی بھی رکھتے ہیں لیکن جومقام میرشکیل الرحمن کاہے وہ منفرد اوریکتا ہے جس

کوبرقراررکھنے کیلئے وہ خود پوری طرح فعال رہتے ہیں۔ اپنے والد اورجنگ گروپ کے بانی میرخلیل الرحمن کی رحلت کے بعد جب ادارہ میرشکیل الرحمن کے پاس آیا توانہوں نے نئے دورکے تقاضوں کواپنانے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کی اور ہروہ قدم اٹھا یا ،جو ان کے خیال میں جنگ گروپ کی ترقی اوربقا کیلئے ضروری تھا گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں دی نیوز انٹرنشنل کااجراء اوراورنئی صدی کے آغاز میں جیوچینل کولانچ کرنا اس کی مثالیں ہیں،ان سے متعلق یہ بات زبان زد عام ہے "کہ وہ ایک بادشاہ گر ہیں "یہ بات صرف کہی نہیں جاتی،بلکہ طاقتورسیاسی حلقوں میں ان کو باقاعدہ بادشاہ گر تسلیم کیاجاتا ہے، میں نے مختلف انتخابات کے موقعوں پر پارلیمنٹ کی غلام گردشوں میں خود بارہایہ بات سنی ہے کہ میرشکیل الرحمن کامیڈیا گروپ جس پارٹی کوسپورٹ کرے گاحکومت اس کی بنے گی اورجس کیخلاف چلے گا وہ حکومت نہیں چل سکے گی۔ یہ بھی سننے میں آئی ہے کہ میرشکیل الرحمن خود کئی باریہ کہہ چکے ہیں کہ وہ جب چاہیں عوام میں کسی حکمران کومنظوریا نامنظور بنادے لیکن پیپلزپارٹی کے آخری دور حکومت میں سرتوڑ کوشش کے باوجود یہ بات سچ ثابت نہیں ہو سکی تھی۔

پڑھنے والوں کویادہوگا کہ اس دور میں ہررات خبروں اورتبصروں کی حدتک پیپلز پارٹی کی سربراہی میں اتحادی حکومت اگلے دن کوختم ہونا تھی لیکن آصف علی زرداری نے باقاعدہ چیلنج دیا تھا کہ کوئی بھی جتنا چاہے اپنی قوت آزمالے وہ پرواہ نہیں کریں گے اوراس کے ساتھ حکومت بھی چلاکردکھائیں گے، بھرسب نے دیکھ لیا کہ آصف علی زرداری نے اس وقت کے سیاسی تقاضوں کے مطابق بہتراندازمیں حکومت چلائی ساروں کوبہت حد تک راضی رکھا اورپانچ سال کی مدت پوری کرلی، لیکن اس سے بھی انکارنہیں کہ آصف زرداری حکومت کے پانچ برسوں کے سوا لگ بھگ ہرحکومت میں میرشکیل الرحمن کاسایہ دکھائی دیا،چاہے وہ مخالفت میں رہا یاپیوستگی میں۔ حتٰی کہ پرویز مشرف کے باوردی صدرہونے کے باوجود ان کی حکومت میں یہ کردار بہت واضح تھا جس کامیں عینی شاہد ہوں کیونکہ اس وقت میں روزنامہ جنگ سے وابستہ رہا۔پاکستان میں ماضی قریب کی حکومتوں کے رویوں کااگرتقابلی جائزہ لیا جائے تو میر شکیل کی گرفتاری یارہائی کے تناظر میں آج کی صورتحال ماضی سے یکسر مختلف ہے،اس وقت ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے جس کے وزیراعظم عمران خان ہیں جواس کیس سے قطع نظر میرشکیل الرحمن کے حوالے سے ایک واضح سوچ رکھتے ہیں ان کی حکومت کے مطابق وہ نیب کے معاملات سے بری الذمہ ہے اور نیب جوبھی فیصلے کرتاہے ایک خود مختار ادارے کی حیثیت سے کرتا ہے یہ معاملہ نیب جانے یا میرشکیل الرحمان جانے ، جبکہ فیصلہ عدالت نے کرناہے۔


اس کے باوجود صحافیوں کامعاملہ اس لخاظ سے انوکھا ہے ، کہ چاہے میرشکیل الرحمن کیخلا ف نیب کاکیس درست ہے یاغلط، اس سے قطع نظران کی گرفتاری بحرحال ہماری صحافتی برادری کیلئے باعث تشویش ہے کیونکہ پاکستان میں گزشتہ ایک سال سے صحافتی شعبہ آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے سرکتا جا رہا ہے اورگزشتہ ایک ڈیڑھ سال کے مختصرعرصہ میں نوائے وقت اورجنگ جیو سمیت مختلف چھوٹے بڑے اداروں سے سینکڑوں صحافیوں کونکالا جاچکاہے، یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ ابھی جاری ہے مختلف اداروں نے یاتوعملے کی تعداد پرکٹ لگایا ہے یا مالی مشکلات کابہانہ کرکے ادارے ہی بند کردیئے ہیں، جس کی وجہ سے دارالحکومت اسلام آباد ،راولپنڈی ،لاہور کراچی ملتان ،کوئٹہ اوردیگرشہروں میں ہرجگہ بے روزگار صحافیوں کی بڑی تعداد نظرآتی ہے، سب کوعلم ہے کہ صحافیوں کی روزی روٹی کاوسیلہ یہی اخباری ادارے ہیں،

جب ان اداروں کی مشکلات بڑھیں گی تولامحالہ اس کے اثرات صحافیوں اور اخباری عملے پربڑیں گے اس لئے میر شکیل الرحمن کی گرفتاری کیخلاف اوررہائی کیلئے گزشتہ چارہفتوں سے ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج کاسلسلہ جاری ہے صحافی اوراخباری کارکن مسلسل بھوک ہڑتال کررہے ہیں اس جدوجہد میں صحافیوں کے ساتھ مختلف سیاسی وسماجی رہنما ، تاجراوردیگرمکاتب فکر کے لوگ بھی شریک ہیں، جن کے مطابق میرشکیل الرحمن کی گرفتاری کامقصد اظہاررائے کی آزادی پرقدغن لگا نااورصحافتی آواز دبانے کی حکومتی کوشش ہے جس نے نیب کے ذریعے میرشکیل الرحمن کو 34 سال پرانے مقدمہ میں گرفتارکرایا ہے، تاکہ منصوے کے تحت ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے صحافیوں اورکارکنوں کو بے روزگارکیا جاسکے یہ ایک سنگین الزام ہے جس پرحکومتی اکابرین کوسوچناچاہئے۔

کیونکہ اس سے پہلے مختلف مقدمات میں اپوزیشن رہنماؤں کو گرفتارکیا گیا اس کاالزام بھی حکومت پرلگایاجاتارہا ۔آج یہی بات میرشکیل الرحمن کی گرفتاری کے بعد کہی جارہی ہے، اس تاثر کوختم کرنا اس لئے ضروری ہے کہ وزیراعظم جومیرشکیل الرحمن سے بہت پہلے سے ناخوش ہیںآ ج کل صرف کرونا کی بات کر تے ہیں گرفتاریوں کی نہیں۔ اس لئے اس معاملے کوکلیئرہوناچاہیے، بلاشبہ میرشکیل الرحمن ایک بڑے میڈیا گروپ کے سربراہ ہونے کے ساتھ ایک معزز اور قابل احترام شخصیت ہیں وہ سینکڑوں گھرانوں کے روزگار کا وسیلہ بھی ہیں ان کو گرفتار ہوئے ایک ماہ سے زائد عرصہ ہوگیا یہ عرصہ کسی بھی کارروبار کے متاثر ہونے کیلئے کافی ہوتا ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ قانونی کارروائی کوجاری رکھتے ہوئے میرشکیل الرحمن کورہا کرکے صحافیوں کی یہ تشویش ختم کی جائے کہ خدانخواستہ حکومت ایک خاص میڈیا گروپ کیخلاف ہے ۔

آخری بات یہ ہے کہ جب سے نیب کی تشکیل ہوئی ہے اس کی کارکردگی پرہمیشہ سے سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ نیب مقدمات جب ریفزنسز کی صورت میں عدالتوں میں پہنچتے ہیں، تووہاں ان کوثابت کرنے کی شرح حیران کن حد تک کم ہے، عدالت کواکثر مقدمات میں نیب کوجھنجھوڑناپڑتاہے کہ بحیثیت ادارہ وہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتا یامتعلقہ افسران تیاری کرکے نہیں آتے،میں نے اپنی صحافتی ذمہ داریوں کے دوران ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں اس طرح کے لاتعداد مقدمات کاجوحال دیکھا ہے ان کوبیان کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن حیرت کی ایک بات یہ ہے کہ جب کوئی اہم شخصیت گرفتار ہوجاتی ہے تو پوری قوم اس گرفتاری کانظارہ کر تی ہے لیکن کچھ عرصہ بعد جب وہ شخص باہر آتاہے تو یہ دعویٰ کرتاہے کہ نیب نے اسے زیر حراست تورکھا تھا لیکن ان سے تفتیش نہیں کی گئی،آخر اس کامطلب کیا ہوتاہے۔

Comments are closed.