لاک ڈاؤن ،2 کروڑ لوگ بےروزگار ہوئے، اسد عمر، میڈیا بحران کا ذکر تک نہ کیا

اسلام آباد(زمینی حقائق ڈاٹ کام) وفاقی
وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے نیتجے میں لگائے گئے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں پاکستان میں 2 کروڑ سے زائد افراد بے روزگار ہوئے۔

اسد عمر نےاسلام آباد میں میڈیا کو بتایا کہ
جس وقت کورونا آیا اور لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرتے ہوئے زیادہ تر کاروباری سرگرمیوں پر بندشیں لگ گئیں پاکستان میں تقریباً ساڑھے 5 کروڑ معاوضے کے عوض روزگار حاصل کرنے کے لیے گھر سے نکلتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 27 مارچ کو این سی او سی بنی تھی، 5 اپریل کو پورا آرگنائزیشن کا اسٹرکچر ہم نے بنا لیا تھا جس میں اہداف پر مبنی لاک ڈاؤن کی حکمت عملی بنائی گئی، ٹیسٹنگ، ٹریکنگ اور قرنطینہ کا نظام 10 اپریل کو شروع ہوگیا تھا.

انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے اندازے سے بتایا کہ تقریباً تمام لوگ اکتوبر تک روزگار پر واپس آ چکے تھے اور نومبر، دسمبر میں تعمیرات کی سرگرمیوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے، بڑی صنعتوں کی ترقی کی رفتار میں تیزی آئی ہے۔

اسد عمر نے کہا کہ اگر اس کا موازنہ آپ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت سے کریں تو کروڑوں لوگ بیروزگار ہو گئے اور دنیا کے طاقتور اور امیر ترین ملکوں میں ہم نے دیکھا کہ کروڑوں اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

انہوں نے کہا کہ بے روزگار ہونے والے 2 کروڑ لوگوں میں سے 29 فیصد دیہاڑی دار افراد تھے جن کی نوکری اس نوعیت کی ہوتی ہے کہ اس دن وہ کام پر آتے ہیں تو ان کو پیسہ ملتا ہے، اس کے علاوہ جو خود کام کرتے ہیں مثلاً ٹھیلا لگاتے ہیں، چھوٹا کھوکھا چلاتے ہیں اور جن کا شمار غریب لوگوں میں ہوتا ہے تو ایسے 30 فیصد لوگ بھی ہے روزگار سے محروم ہو گئے۔

اسد عمر نے کہا کہ بے روزگار ہونے والوں میں سے ایک چوتھائی کا تعلق صنعت سے ہو گا، 20 فیصد تعمیرات کی صنعت سے منسلک تھے اور اگر ان دونوں کو جوڑ دیا جائے تو 46 فیصد بنتا ہے، یعنی ایک کروڑ افراد ان دو شعبوں سے تعلق رکھتے تھے۔وفاقی وزیر نے میڈیا سے ہزاروں لوگوں کے بےروزگار ہونے کا ذکر نہیں کیا.

ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ تھی کہ جب ہم فیصلے کررہے تھے تو ہم نے سب سے پہلے صنعتوں اور تعمیرات کے شعبے کو کھولا تھا اور سب سے زیادہ جہاں مشکل نظر آرہی تھی، ہم نے ان شعبوں کو کھولا۔

وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ تعمیرات کے شعبے میں روزانہ کی بنیاد پر کمانے والے 80 فیصد مزدوروں کا کاروبار بند ہو گیا تھا، اگر یہ تعمیرات کا شعبہ کھولنے کا فیصلہ نہ کیا جاتا تو کیا ہوتا کیونکہ اس شعبے میں محنت کرنا والے ہر پانچ میں سے چار افراد اپنا روزگار کھو بیٹھے تھے۔

انہوں نے کہا کہ صنعتوں میں 72 فیصد لوگ روزگار سے محروم ہو گئے تھے یعنی ہر چار میں سے تین بے روزگار ہو گئے، اسی طریقے سے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ملازمت کرنے والے 67 فیصد افراد کی ملازمت ختم ہو گئی تھی، ان شعبوں کو اس لیے کھولنا ضروری تھا۔

اسد عمر نے روزگار بند ہونے سے مرتب ہونے والے اثرات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 54 فیصد لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ دیگر چیزوں کی خریداری کم کردی لیکن 50 فیصد افراد نے نسبتاً سستی چیز کھانی شروع کردی یا کم خریدنا شروع کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 47 فیصد افراد کو اس دوران اپنی جمع پونجی استعمال کرنی پڑی یا اپنے چھوٹے موٹے اثاثوں کو بیچنا پڑ گیا جبکہ 30 فیصد افراد نے اپنے رشتے داروں اور دوستوں سے قرض لے کر گزارا کیا۔

وزیر منصوبہ و ترقی نے کہا کہ ان فیصلوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ چاہے ورلڈ ہیلتھ فورم ہو، ورلڈ اکنامک فورم، عالمی ادارہ صحت ہو، بل گیٹس ہو، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر ہوں، تمام دنیا نے پاکستان کی تعریف کی۔

انہوں نے کہا کہ یہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ یہ افراد کتنی مشکل میں تھے اور اگر بروقت فیصلے نہ کیے جاتے تو آگے کتنی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا تھا۔

Comments are closed.