راولپنڈی کی،حویلی سوجان سنگھ

ضیا الحق چوہدری

آج مارشل سٹی راولپنڈی اور اسلام آباد کے جدید اورخوبصورت شہر جن علاقوں میں آباد ہیں کم و بیش دو صدیاں قبل یہ سوجان سنگھ کی ریاست ہوا کرتے تھے۔اس شاندار ریاست کے روسااس وقت کے نسبتاً چھو ٹے لیکن انتہائی پر سکون شہر راولپنڈی کے مرکز میں اپنی عالیشان حویلی میں شاہانہ زندگی گذارتے تھے۔ اس حویلی کے کھنڈر دیکھنے ہوں تو میری طرح آپ بھی راولپنڈی کے بھابڑا بازاراور سید پوری گیٹ کی تنگ و تاریک گلیوں یا صرافہ بازارکیطرف سے ہوتے ہوئے سوجان سنگھ حویلی تک پہنچ سکتے ہیں۔

بری طرح ٹوٹ پھوٹ کی شکا ر اس حویلی کے بیرونی دورازیہی اس کی عظمت رفتہ کی داستان سنانے کیلئے کافی ہیں۔24ہزارمربّع فٹ رقبے پر جس جگہ یہ حویلی تعمیر کی گئی تھی اس سے آج بھی پورا شہر اور اسلام آباد کا خوبصورت نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ ماضی میں جب یہ شہر مختصر سا تھا تو اس کے مکین حویلی کے جھروکوں سے مارگلہ اور مری کی پہاڑیوں کا انتہائی دلفریب نظارہ کرتے ہوں گے۔ اس حویلی کے ارد گرد باغات تھے اور جب یہ بنائی گئی تو تب یہ شہر کی اولین چار منزلہ عمارت تھی۔

سوجان سنگھ کے آباؤ اجداد اسی حویلی میں مقیم تھے۔ 1890ء میں سوجان سنگھ نے اپنے آبائی گھر کو ایک شاندار محل میں بدلنے کیلئے مختلف علاقوں سے نامور ماہرین تعمیرات کی خدمات حاصل کیں۔عالیشان حویلی کے کھنڈر بتا رہے ہیں کہ عمارت عظیم تھی۔باریک نانک شاہی اینٹوں کو چونے اور مونگ کے چھلکے سے تیار کردہ مسالے سے نہایت نفاست کیساتھ اس طرح چنا گیا کہ دو صدیوں کے دوران آ نے والے کئی تباہ کن زلزلے بھی انہیں گرا نہ سکے۔حویلی کی دیواروں کے اوپر محرابیں اس کی بڑی چھت کو مضبوطی سے سہارہ دیئے ہوئے ہیں۔

چھت کو لوہے کے گارڈرز اور لکڑی کے مضبوط شہتیروں سے ایستادہ کیا گیا ہے اوران کے اندر کی طرف لکڑی کی سیلنگ کی کئی ہے جس پر دیدہ زیب نقش ونگار اور سکھ مت کے مذہبی کلمات کندہ کئے گئے ہیں۔حویلی کے مرکزی صحن میں لوہے اور لکڑی کے گارڈرز بالائی منزل کیلئے برامدے کے سہارے کاکام کرتے ہیں۔سوجان سنگھ حویلی کی ایک اور نمایاں بات اس کا باورچی خانہ ہے صحن میں داخل ہوں تو دائیں جانب ایک بڑے کمرے میں اس گھرانے کا کچن تھا جہاں سامنے کی دیواد میں تین آتشدان اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہاں بڑی تعداد میں لوگوں کیلئے کھانا پکتا تھا۔

حویلی کی دیواریں دو سے تین فٹ جبکہ ستون تین سے ساڑھے تین فٹ تک چوڑے ہیں۔ حویلی کا کورڈایریا 24،000مربع فٹ ہے۔ 1937ء میں اس حویلی میں بجلی لگ گئی۔ جب شام کو اس چار منزلہ حویلی میں چراغاں ہوتا تو حویلی کے 45 کمرے جگمگا اٹھتے اور لوگ دور دور سے اس حویلی کا نظارہ کرنے آتے۔مورخین کے مطابق، شام کے وقت حویلی کے صحن اور بالکونیوں میں مور ناچتے اور شیر گھوما کرتے تھے جب کہ حویلی میں بجنے والی کلاسیکل موسیقی ماحول کو سحر انگیز بنا دیتی تھی۔فرنیچر وکٹورین سٹائل تھا اور کھانے کے برتن چین سے لائے گئے تھے۔

بعض روایات کے مطابق عمارت کی تعمیر میں استعمال ہونیوالی لکڑی اور لوہا برطانیہ سے منگوایا گیا تھا لیکن تحقیق سے یہ بات درست ثابت نہیں ہوئی۔دراصل رائے بہادر سوجان سنگھ کا خاندان لکڑی کی تجارت کرتا تھا اور موجودہ راجہ بازار کی ٹمبر مارکیٹ میں اس خاندان کے لکڑی کے بڑے بڑے گودام تھے۔

سوجان سنگھ حویلی کے درمیان سے گلی گزرتی ہے جس کیاوپر لکڑی اور لوہے سے عالیشان پلی تعمیر کی گئی ہے جو آج ہے راہگیروں کو اپنی عظمت رفتہ کی داستان سناتی ہے۔اسی تنگ گلی میں آگے قدیم مکانوں کی لمبی قطار ہے کہا جاتا ہے کہ ان گھروں میں سوجان سنگھ کے ملازم اور خادم رہا کر تے تھے۔سوجان سنگھ حویلی کے ساتھ متصل بھابڑا بازار جین مت کے ایک فرقے سے موسوم ہے۔ یہ لوگ بدھ مت اور ہندو مت کی درمیانی شکل تھے جو عدم تشدد کے پیروکار تھے۔یہاں قریب ہی چٹیا ں ہٹیاں کا تاریخی مندر اور شاہ چن چراغ کا مزار بھی ہیں۔

پینتالیس کمروں پر مشتمل سوجان سنگھ حویلی کی تعمیر 1893ء میں مکمل ہوئی۔ اس کی افتتاحی تختی حویلی پر نصب تھی جسے 1990ء میں سکریپ میں بیچ دیا گیا۔ اس محل کے مکینوں کا سلسلہ نسب بابا گرو نانک سے اور سردار ملکھا سنگھ تھلہ پوریا سے ملتا تھا جس نے 1766ء میں راولپنڈی کی بنیاد رکھی تھی اور جو پوٹھوہار کا پہلا سکھ حکمران بھی رہا۔سوجان سنگھ کا دادا سردار بدھا سنگھ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں ضلع راولپنڈی کے محکمہ مال کا افسر تھا جبکہ اس کا باپ سردار نند سنگھ جو 1871ء میں فوت ہوا اُسے پنجاب میں انگریز سرکار کے دربار میں نمایاں مقام حاصل تھا۔ نند سنگھ نے شہر میں فلاحی سرگرمیوں میں نام کمایا اور کئی ادارے کھولے۔ سنگ جانی کی سرائے بھی سوجان سنگھ کے والد نند سنگھ نے بنوائی تھی۔ سردار سادھو سنگھ بھی اسی خاندان سے تھا جس نے شاہ اللہ دتہ میں سادھو باغ لگایا تھا جو آج بھی موجود ہے۔

سردار سوجان سنگھ کے پاس جو دو بڑی جاگیریں تھیں ان میں ایک کٹاریاں اور دوسری مصریوٹ(دھمیال گاوں سے کچھ آگے) تھی۔ سوجان سنگھ لکڑی کا کاروبار کرتا تھا اور کشمیر اور شمالی پہاڑی علاقوں سے قیمتی لکڑی منگوا کر بیچتا تھا۔ مگر اس پر قسمت کی دیوی اس وقت مہربان ہوئی جب اینگلو افغان جنگوں میں وہ ملٹری کنٹریکٹر کے طور پر سامنے آیا اور انگریزی فوج کو اشیائے خوردو نوش، جانوروں کیلئے چارہ اور ایندھن کی سپلائی شروع کی جس کے عوض 1888ء میں اسے وائسرائے ہند نے رائے بہادر کا خطاب دیا اور گورنر پنجاب نے سوجان سنگھ کی خدمات پر 1873ء میں حسن ابدال میں منعقدہ دربار میں انہیں خلعت سے بھی نوا زا۔ سوجان سنگھ 1901ء میں فوت ہو گیا۔ تذکرہ رؤسائے پنجاب (مرتب 1940ء از سر لیپل ایچ گرفن اور کرنل میسی) کے صفحہ 646 پر درج ہے کہ سوجان سنگھ جب فوت ہوا تو اس کا بیٹا سردار ہردیت سنگھ اس کی جائیداد کا وارث بنا مگر وہ بھی تین سال بعد اپنے دو بیٹے سردار موہن سنگھ اور سردار سوہن سنگھ چھوڑ کر فوت ہو گیا جو ایچی سن کالج لاہور میں زیر تعلیم تھے۔

جنگ عظیم دوم کے وقت انہوں نے نہ صرف فوجیوں کی بھرتی میں تاج برطانیہ کی مدد کی بلکہ تین لاکھ روپیہ نقد بھی دیا (بحوالہ وار ہسٹری آف دی راولپنڈی ڈسٹرکٹ)۔ ان خدمات کے عوض سردار موہن سنگھ کو اعزازی تلوار، پستول اور کئی سندیں عطا ہوئیں۔ 1930ء سے 1934ء تک یہ ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی کا منتخب رکن بھی رہا۔ اس کے علاوہ ممبر چیف خالصہ کالج اوررولپنڈی کا اعزازی مجسٹریٹ بھی رہا۔ اسے 1935ء میں سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈین کونسل کا ممبر مقرر کر کے انگلستان بھیجا گیا جہاں وہ 1940ء میں سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا کا مشیر بھی بن گیا۔

سوجان سنگھ کا دوسرا بیٹا سردار سوہن سنگھ رفاہی کاموں میں از حد دلچسپی رکھتا تھا، اسے بھی پنڈی اور مری کے اعزازی مجسٹریٹ کے اختیارات حاصل تھے۔ اس کے تین بیٹے تھے جن میں سے ایک گربچن سنگھ تھا جو آزادی کے بعد بھارت کا پاکستان، سوئٹزر لینڈ اور مراکو میں سفیر بھی رہا۔ سردار سوہن سنگھ کے بیٹے کرنل سردار شمشیر سنگھ کی شادی ہندوستان کی ایک امیر ریاست جند کے مہاراجہ کی بیٹی راجکماری بلبیر کور سے ہوئی تھی۔ ریاست جند 3260مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی تھی جس کی سالانہ آمدنی اس وقت تیس لاکھ تھی۔

سوجان سنگھ خاندان نے اپنا مال و دولت صرف اس شاندار محل کی تعمیر میں ہی صرف نہیں کیا بلکہ شہر میں مفاد عامہ کی دیگر عمارتیں بھی بنوائیں۔ راولپنڈی کے گزیٹئر 1910ء کے مطابق 1883ء میں سوجان سنگھ نے بریگیڈئیر جنرل جان میسی کی یاد میں میسی گیٹ اورمیسی مارکیٹ بھی بنوائی۔ باغ سرداراں بھی سوجان سنگھ نے تعمیر کرایا تھاجہاں باغات تھے، گھاس کے لان تھے اور بارہ دریاں تھیں۔ اس کے علاوہ ایک گوردوارہ، ایک شادی ہال، میوزیم اور ہردیت سنگھ لائبریری بنوائی۔ سوجان سنگھ نے اپنے چچا کرپال سنگھ کے ساتھ مل کر 1890ء میں مال روڈ راولپنڈی میں لینزڈاؤنے انسٹی ٹیوٹ بھی بنایا۔ جہاں پر تھیٹر اور ڈانس کیلئے آڈیٹوریم بنے ہوئے تھے، یہاں فنکاروں کے قیام و طعام کی سہولتیں بھی موجود تھیں۔ لارڈ لینز ڈاؤنے 1888ء سے 1894ء تک ہندوستان کے وائسرائے تھے۔

سوجان سنگھ حویلی کے دو ادوار ہیں۔ 1893ء سے 1947ء تک 54 سال یہ حویلی سوجان سنگھ خاندان کے زیر استعمال رہی جبکہ دوسرا دور 1947ء سیبعد کا ہے ۔تقسیم ہند کے وقت سوجان سنگھ کی آل اولاد یہ حویلی بیچ کربھارت چلی گئی جس کے بعد بھارت سے آنے والے مسلمان مہاجرین کے40خاندان کچھ عرصہ تک اس کے مکین رہے۔سینکڑوں کھاتے پیتے مہاجر گھرانوں نے حویلی کے ارد گردہندووں اور سکھوں کی تعمیر کردہ عمارتوں میں رہائش اختیار کر لی۔ ان میں سے چونکہ بہت سے لوگ سونے کے کاروبار سے منسلک تھے لہٰذا انہوں نے اسی علاقے میں زیورات اور قیمتی دھاتی برتنوں کی دکانیں بنا لیں اور یوں راولپنڈی کا صرافہ بازار بھی وجود میں آگیا۔

حویلی سوجان سنگھ سے باہر نکلیں اور بھابڑہ بازار سے مری روڈ کی طرف چلیں تو بائیں ہاتھ پر برگر فروش کی اس چھوٹی سی یہ دکان سے برگر ضرور انجوائے کریں۔۔لذیذ اور بے مثال تاریخ کا یہ عظیم تحفہ اور بے مثال ثقافتی ورثہ اس وقت نوحہ کناں ہے۔

اس حویلی کی تولیت اورانتظام وانصرام راولپنڈی کے نیشنل کالج آف آرٹس کے سپرد ہے لیکن سرمائے کی قلت اور حکام کی نااہلی ،چشم پوشی اور کرپشن کے باعث یہ عالیشان عمارت اب کھنڈر بن چکی ہے۔نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ متعلقہ ادارے کے حکام نے سیاحوں اور طلبہ کے مطالعاتی دوروں تک پر پابندی لگا رکھی ہے ۔صحافیوں کاداخلہ بند ہے کہ کہیں عمارت کی حالت زاراور حکام کی نااہلی منظر عام پر نہ آ جائے۔نیشنل کالج آف آرٹس یا اس سے اوپر کے اداروں کو چاہیئے کہ وہ اس حویلی کو سیاحوں اور صحافیوں کیلئے کھول دیں ممکن ہے ان کی کوششوں سے ثقافتی ورثے کی بحالی کے عالمی ادارے اس جانب توجہ کریں اور سوجان سنگھ حویلی کی تاریخی حیثیت بحال ہو سکے۔

(بشکریہ تجزیات ڈاٹ کام )

Comments are closed.